ایم اے کنول جعفری
آدھی دہائی قبل چین کے ووہان شہر سے شروع ہوئے کورونا وائرس (کووڈ19-) نے وبائی شکل اختیار کرکے دنیا بھرمیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کی آغوش میں لے کربڑی تباہی مچائی تھی اور بنی نوع انسان کوبے انتہاکڑوی حقیقتوں اور زبردست ہولناکیوں سے روشناس کرایا تھا۔ کورونا وائرس کے کرب، کڑوی سچائی اور کسی بھی قیمت پر یاد نہیں رکھی جانے والی زہریلی یادیں ابھی خانماں برباد لوگوں کے دل و دماغ سے معدوم بھی نہیں ہوپائی تھیں کہ ایک مرتبہ پھر چین میں وبائی مرض ہیومن میٹانیومووائرس(Human Metapneumovirus) نے تیزی سے پیر پسارتے ہوئے دنیا کو تشویش و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔اس وائرس سے چین کے 14صوبے زیادہ متاثر ہیں۔نئی وبائی بیماری کے پھیلاؤ سے اسپتال بھرے پڑے ہیں۔ ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔وائرس کو لے کر جہاں پورے عالم میں دہشت و تشویش ہے،وہیں اس سے انسانی صحت کے لیے بھی زبردست خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ تیزی سے بڑھتے معاملوں نے ماہرین صحت کی تفکرات میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ہندوستان میں بھی ایچ ایم پی وی نے دستک دے دی ہے۔کرناٹک اور تمل ناڈو سے2-2اورمغربی بنگال و گجرات سے1-1کیس مثبت پائے جانے کی تصدیق ہوچکی ہے۔اس سے لوگوں کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔
ایچ ایم پی وائرس کی پہلی مرتبہ شناخت 2001میں نیدرلینڈ میں ہوئی تھی۔2011-12میں امریکہ، کناڈا اور یوروپ میں اس کے معاملے رپورٹ کیے گئے تھے۔ یہ وائرس نظام تنفس پرحملہ کرتا ہے۔ شروع میںنزلہ کی شکایت ہوتی ہے۔نزلہ زکام کے ساتھ سانس کا انفیکشن ہونے لگتا ہے۔ کورونا وائرس کی طرح اس مرض کی علامتوں میں بھی کھانسی کا ہونا، بخار کا آنا، ناک کا بند ہوجانا اور سانس لینے میں دشواریاں شامل ہیں۔بدن پر سرخ رنگ کے داغ بھی بن جاتے ہیں۔ وائرس سے متاثر شخص عام طور پر3 سے 6 روز تک بیمار رہتا ہے،لیکن مرض کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں مزید ابتری کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔بعض مریضوں کی حالت تشویش ناک ہوجاتی ہے۔ چین کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے کوئی معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے معلومات چھپاتا ہے اور اپنے رُخ کا بچاؤ کرتا ہے۔ سرکاری طور پر بھی رازداری برقرار رکھی جاتی ہے۔ مہلک بیماری چھپانے کی کوشش میں معاملہ اور پیچیدہ ہو جاتاہے۔5برس قبل ووہان سے پھیلے وبائی مرض’ کورونا وائرس‘ کی بابت بھی چین یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ قیامت صغریٰ برپا کرنے والا مہلک مرض اس کے یہاں سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔خاندان کے خاندان موت کا شکارہو ئے تھے۔ لوگ اپنے گھروالوں کی لاشوں کو دفن کرنے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے سے بچنے کے لیے لاشوں کو پہچاننے سے انکار کرنے لگے تھے۔ کووڈ19-سے دنیا بھر میں 71لاکھ افراد کی جان گئی تھی، جب کہ ہندوستان میں5.5لاکھ لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔
اَب یہی بات نئے وائرس ایچ ایم پی کے پھیلاؤ کو لے کر سامنے آ ئی ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعہ ایچ ایم پی وی سے متعلق خبریں وائرل ہونے سے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی اور لوگ دہشت میں آ گئے۔ چین میں مریضوں کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے سرکاری اور غیرسرکاری ذمہ دار ادارے وائرس کے مضر اثرات کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔اس وائرس کے پھیلنے کی قریب قریب وہی صورت حال اور علامات ہیں،جو کوروناوائرس میں پائی گئی تھیں۔ایچ ایم پی وی سے متاثر مریض کے کھانسنے یا چھینکنے بھر سے اس کا وائرس دوسرے شخص کو متاثر کر دیتا ہے۔ مریض اور صحت مند اشخاص کے ایک دوسرے کو چھونے، ہاتھ ملانے ،رابطے میں رہنے یا جسمانی تعلقات بنانے سے بھی مرض تندرست شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ ناک، منہ اور آنکھ وغیرہ متاثر اعضا کو چھونے سے بھی وائرس صحت مند جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ وائرس سے بچاؤ اور تحفظ کی بات کریں تو کورونا وائرس کی طرح زبردست پرہیز کر کے اس وبا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کو حسب ضرورت باقاعدگی کے ساتھ صاف پانی اور صابن سے دھوئیں۔ہاتھ دھونے میں کم سے کم 20سیکنڈکا وقت ضرور لگائیں۔اس سے بھی ضروری امر یہ کہ متاثر یا بیماری کی علامات ظاہر ہونے والے شخص سے کووڈ کی طرح فاصلہ برقرار رکھیں۔ روزمرہ استعمال ہونے والے دروازے، ہینڈل، ہینڈپمپ، پانی کی ٹونٹی، گلاس، لوٹا، مگ، بالٹی، ضروری برتن اور کھلونے وغیرہ باربار چھونے والی چیزوںکو صاف کرتے رہیں۔ چھینک آتے یا کھانستے وقت منہ اور ناک کو کپڑے سے ڈھانپ لیں یا ماسک لگائیں۔ گھر کے اندر رہیں۔متاثر شخص کے سامان کو چھونے سے بھی انفیکشن کا خطرہ لاحق رہتا ہے،اس لیے ہر ممکن کوشش کی جائے کہ کسی کے سامان وغیرہ کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔چوں کہ یہ وائرس نیا ہے،اس لیے ابھی تک اس کی کوئی ویکسین یا اینٹی وائرل دوا نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوگ پہلے کے مقابلے زیادہ بیدار ہیں اور لوگوں کو فی الحال زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔زیادہ تر لوگ مرض کی علامات کے مدنظر علاج اور آرام کے سہارے ٹھیک ہو رہے ہیں۔شدید طور پر متاثر افراد کو اسپتالوں یا ڈاکٹروں کی دیکھ ریکھ میں رہ کر علاج کرانے کی صلاح دی جارہی ہے۔3روز سے زیادہ بخار رہنے اور حالت میں بہتری نہیں آنے کی صورت میں ڈاکٹروںسے رابطہ کرنے اور ان کے بتائے طریقے پر علاج و پرہیز کرنے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔حالاں کہ ابھی چین کی جانب سے کسی قسم کا اشارہ نہیں دیا گیا ہے،لیکن صورت حال سنگین ہونے کی پوزیشن میں متاثرین افراد کو اسپتالوں میں داخل ہونے ،آکسیجن تھیراپی اور کورٹیکوسٹیرائیڈ علاج کی نوبت آسکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا ماننا ہے کہ یہ وائرس گزشتہ برس اکتوبر سے ہی بڑھ رہا ہے۔یہ موسمی بھی ہو سکتا ہے،جو وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہو جاتاہے۔ادارے کے مطابق ایچ ایم پی وی18ممالک میں داخل ہوچکا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے چین میں نئے وائرس کو طبی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ سائنسی طور پرچین پہلے کے مقابلے زیادہ مضبوط ہوا ہے،لیکن اسے اپنے یہاں جب تب ہو رہے ایسے کسی بھی انفیکشن کو لے کر آگاہ اورکافی بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ وبائی مرض سے متعلق وائرس یا انفیکشن کی شروعات چین سے ہی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وائرس کو لے کر چین کے لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ چین میں لوگوں کی بنیادی صحت کو نظراندازکرنے کی بات تو سمجھ سے پرے ہے ،لیکن یہ سچ ہے کہ وہاں کے لوگ کورونا وائرس یا ایچ ایم پی وائرس جیسے خطرات کا سامنا کرنے پر مجبورہیں۔دل کو گہرائی تک درد دینے والا لاکھ ٹکے کا سوال یہ بھی ہے کہ ایچ ایم پی وی یا کوئی دیگر مہلک وبا کووڈ19-کی طرح دستک تو نہیں دے رہی ہے۔سوال اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جدیدترین طبی سہولتوں،نئے نئے تشخیصی آلات اور جدید مشینوں کی موجودگی کے باوجود دنیا بھر کو کورونا وائرس کے قہر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ہندوستان میں بھی مارچ 2020 سے لاک ڈاؤن لگانے کی ضرورت پڑگئی تھی۔حالاں کہ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اتل گوئل کے مطابق اس مرض سے بزرگوں اور ایک سال سے کم عمر کے بچوں کو پریشانی ہوسکتی ہے۔ یہ سنگین بیماری نہیں ہے اور اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مرکزی وزارت صحت اور’ نیشنل سینٹر فار ڈزیزکنٹرول‘(این سی ڈی سی) ملک میں سانس اور موسمی انفلوئنزا کے معاملوں پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب اگر عام شہری بھی کووڈ19-کی طرح احتیاطی قدم اُٹھاتے ہوئے ضروری ہدایات پر عمل کرنا شروع کردیں تو اس میںکوئی حرج نہیں ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]