زلزلہ کی زد میں ’انڈیا‘

0

ہندوستانی سیاست میں اتحاد ہمیشہ ایک پیچیدہ اور نازک عمل رہا ہے کیونکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے نظریات،پس منظراور مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ جب ان جماعتوں کو کسی مشترکہ مقصد کے تحت ایک پلیٹ فارم پر لایا جاتا ہے تو وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال مختلف سیاسی جماعتوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اتحاد قائم کرکے یہ ’معجزہ‘ کر دکھایا تھا،یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے مقصد میں اب تک ناکام ثابت ہوتی آرہی ہیں۔ مگر اب کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع نے اس اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کجریوال پر کانگریس کے سینئر لیڈر اجے ماکن کے الزامات اور اس کے بعد عام آدمی پارٹی کی جوابی دھمکیوں نے ایک گہری سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔

یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب کانگریس کے سینئر رہنما اجے ماکن نے اروند کجریوال پر شدید الزامات عائد کیے۔ اجے ماکن نے کجریوال کو ’’ملک دشمن‘‘ قرار دیا اور ان کی حکومت کی فلاحی اسکیموں کو کاغذی دعوئوں تک محدود قرار دیا۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ عام آدمی پارٹی نے جو فلاحی اسکیمیں شروع کی تھیں،وہ یا تو حقیقت میں موجود نہیں ہیں یا ان کی کارکردگی محض کاغذی حد تک ہے۔ اجے ماکن نے کجریوال کو ’’دھوکہ دہی کا بادشاہ‘‘ تک قرار دیا۔دہلی میں اسمبلی انتخابات کے گرماگرم ماحول میں یہ الزامات عام آدمی پارٹی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کرگئے۔اس کے ساتھ ہی کانگریس کے ان الزامات نے ایک سنگین سوال کو جنم دیاکہ کیا عام آدمی پارٹی کا مقصد واقعی عوامی خدمت ہے یا یہ پارٹی صرف سیاسی موقع پرستی کی ایک مثال ہے؟ دہلی میں بجلی،پانی،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انقلاب کے دعوے کرنے والی عام آدمی پارٹی،کانگریس کے مطابق، حقیقت میں ان مسائل کو صرف سیاسی بیانات کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

عام آدمی پارٹی نے اس پریس کانفرنس کے بعد نہ صرف ان الزامات کو مسترد کیا بلکہ کانگریس پر بی جے پی کے ساتھ خفیہ ساز بازکا الزام بھی لگایا۔عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما سنجے سنگھ اور دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی نے ایک جارحانہ پریس کانفرنس میں کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس دہلی انتخابات میں بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ان کے امیدواروں کو بی جے پی سے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ آتشی نے یہ الزام بھی لگایا کہ کانگریس نے دہلی میں کبھی بی جے پی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی،جبکہ عام آدمی پارٹی کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے میں سبقت لی۔ یہ صورتحال صرف الزامات تک محدود نہیں رہی۔ عام آدمی پارٹی نے کانگریس قیادت کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ اجے ماکن کے خلاف کارروائی کرے، ورنہ عام آدمی پارٹی دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ بات کرکے کانگریس کو ’’انڈیا‘‘ بلاک سے باہر کرنے کا مطالبہ کرے گی۔
یہ تنازع اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کی وجہ سے پریشان ہے تو دوسری طرف کانگریس کی وجہ سے اسی سال مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ہوئے نقصانات کا درد بھی اسے بے کل کیے ہوئے ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ عام آدمی پارٹی اپنی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر گہرائی سے غور کرے اور قومی سیاسی منظر نامے میں اپنے مقام کو سمجھ کر اس پر نظر ثانی کرے۔ دوسری جانب، کانگریس کو اپنے اتحاد کی حکمت عملی پر تجدید نظر کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کا مقصد مختلف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا تاکہ وہ عوام کیلئے مل کر کام کریں، لیکن اس اتحاد کے اندر کی سیاست اور الزامات نے اس کی سنجیدگی اور دیانت داری پر سوال اٹھا دیا ہے۔ اگر یہ اتحاد اپنی بنیادی نوعیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو تمام جماعتوں کو اپنی انا اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ اتحاد کی اصل طاقت دیانت داری اور مشترکہ مقصد میں ہے۔ اگر یہ بنیادی اصول کمزور ہوں تو ایسے اتحاد عوامی بھلائی کے بجائے سیاست کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ عوام کو ان سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو ان کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کیلئے عملی اقدامات کریں،نہ کہ محض سیاسی نعروں اور موقع پرستی کے کھیل میں الجھے رہیں۔

عام آدمی پارٹی کے الٹی میٹم نے ’’انڈیا‘‘ کو ایک شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے، جس کے اثرات اگر مزید بڑھتے ہیں تو یہ اتحاد نہ صرف اپنے مقصد سے محروم ہو جائے گا بلکہ زمین بوس ہو جائے گا۔ وہ معجزہ، جو ایک سال قبل مختلف سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑا کر کے دکھایا تھا، اب ایک بلبلہ بنتا نظر آ رہا ہے۔ اگر اس بحران کا تدارک نہیں کیا گیا اور سیاست کے اس طوفان میں اگر عقل و تدبیر کی رہنمائی حاصل نہ کی گئی تو یہ اتحاد نہ صرف اپنی بنیادوں سے ہل جائے گا بلکہ اس کا پھیلاؤ بھی ایک آفت بن کر سامنے آئے گا، جو عوام کے مفاد کے بجائے صرف سیاست کے کھیل کا شکار ہوگا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS