ملکوں کے تعلقات بدلتے حالات کی مناسبت سے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ عالمی سیاست میں مفاد کے سوا کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ امریکہ اور چین کے تعلقات میں تلخی آنے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ امکان اس بات کا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد اس تلخی میں مزید اضافہ ہوگا، امریکہ، تائیوان سے زیادہ مستحکم تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا، وہ تائیوان کو فوجی امداد فراہم کرے گا اور اس پر چینی حکومت اسے اسی طرح متنبہ کرے گی جیسے تائیوان کے لیے اس کی حالیہ فوجی امداد پر اس نے متنبہ کیا ہے۔ دراصل اس وقت کم و بیش 1970کی دہائی والے ہی حالات ہیں۔ اس وقت سوویت یونین سے امریکہ کا مقابلہ تھا اور اس کے خلاف امریکہ کو چین کی ضرورت تھی جبکہ آج امریکہ کا مقابلہ چین سے ہے جو اس کی جگہ لے لینے کے لیے بے چین ہے اور اسی لیے اسے تائیوان کی ضرورت ہے۔
بیجنگ سے واشنگٹن کے تعلقات استوار کرنے کے لیے 1971 اور 1972 میں ہنری کسنجر دو بار چین کے خفیہ دورے پر گئے تھے اور اس کے بعد 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی شریک حیات پیٹ نکسن کے ساتھ چین کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد امریکہ اور چین قریب سے قریب تر آتے چلے گئے، امریکہ کے ساتھ اور دنیا کے بدلتے حالات کا چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ اس پوزیشن میں آگیا کہ دنیا کی دوسری بڑی اقتصادیات بن گیا۔ اس طرح کی خبریںآتی رہتی ہیں کہ اتنے برسوں میں چین اقتصادی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا یعنی اب امریکی حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔ چین کو روکنے کے لیے اسے جو بھی کرنا ہے، جلدی کرنا ہوگا، ورنہ اقتصادی محاذ پر امریکہ کے چین سے پچھڑ جانے پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ حالات کے مدنظر ہی ڈونالڈ ٹرمپ نے پچھلی مدت صدارت میں چین کے خلاف یہ واضح پالیسی اختیار کی تھی کہ امریکہ، چین کے دائرۂ اثر کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کرے گا،اقتصادی محاذ پر چین سے نمٹنے کے لیے اپنے عالمی اثرات کا استعمال کرے گا، ان ممالک سے تعلقات زیادہ مستحکم بنائے گا جو چین سے ٹکراؤ کی صورت میں امریکہ کے کام آسکیں۔ اسی لیے امریکہ کا جھکاؤ تائیوان کی طرف ہوا۔ تائیوان سے امریکہ کی قربت بڑھنے لگی لیکن یہ قربت چین کو پسند نہیں۔ شی حکومت یہ جانتی ہے کہ امریکہ اور تائیوان کی بڑھتی ہوئی قربت مستقبل قریب یا بعید میں چین کے لیے مسئلے پیدا کرے گی، اس کی الجھنوں میں اضافہ کرے گی۔ اسی لیے امریکہ کے تائیوان کو حالیہ فوجی امداد پر اس نے کہاہے کہ ’امریکہ آگ سے کھیل رہا ہے۔‘
دراصل امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے صدر کے اختیارات کے تحت تائیوان کو 571.3 ملین یعنی 57 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان کو چین نے بڑی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس نے انتباہ اسی لیے دیا ہے مگر امریکہ جانتا ہے کہ فی الوقت چین اس سے براہ راست ٹکرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے اس سے ٹکرانے کے لیے ابھی اور طاقت میں اضافہ کرنا ہوگا، یوآن کو مضبوط اور ڈالر کو کمزور کرنا ہوگا۔ یوکرین جنگ نے چین کو روس کے ساتھ ڈالر کو کمزور کرنے کا موقع دے دیا ہے اور دونوں ملک نے گزشتہ برس 90 فیصد کی باہمی تجارت اپنی اپنی کرنسی میں کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ ڈالر کے تسلط کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ کی پابندیوں کی وہ اہمیت نہ رہے جو ابھی ہے لیکن آج بھی 55 فیصد سے زیادہ عالمی تجارت ڈالر میں ہی ہوتی ہے، اس لیے امریکہ کے پاس یہ موقع ہے کہ چین کے خلاف اپنی پوزیشن زیادہ مضبوط بنائے۔ تائیوان اس سلسلے میں اہمیت کا حامل اپنے محل وقوع کی وجہ سے ہے۔ وہ بحیرۂ شرقی چین اور بحیرۂ جنوبی چین کے درمیان واقع ہے۔ بحیرۂ شرقی چین میں چین جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کے علاقوں پر دعوے کرتا ہے تو بحیرۂ جنوبی چین میں برونئی، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، ویتنام اور تائیوان کے علاقوں پر دعوے کرتا ہے یعنی ضرورت پڑنے پر اس خطے میں امریکہ کو تائیوان سمیت کئی ملکوں کا ساتھ ملے گا مگر یوکرین جنگ میں شمالی کوریا نے روس کی مدد کر کے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس خطے میں اسے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ علاقہ ایسی سرگرمیوں کا مرکز بنے گا جس کے اثرات عالمی ہوں گے۔