ایم اے کنول جعفری
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے 22دسمبر2024کو مہاراشٹر کے امراوتی میں منعقد ’مہانوبھاؤ آشرم‘ کی صد سالہ تقریب میں مذہب پر دئے گئے بیان سے ہرکسی کو حیرت زدہ کردیا ۔ اُن کے اس بیان کی چو طرفہ تعریف کی جارہی ہے ۔ اُنھوںنے کہا کہ مذہب کا نامکمل علم انسان کو بُرائی کے راستے پر لے جاتا ہے۔ دنیا میں مذہب کے نام پر جتنے بھی ظلم و ستم ہوئے،وہ دراصل کسی غلط فہمی اور مذہب کے بارے میں کم علمی کی وجوہات پر ہوئے۔مذہب ہمیشہ سے ہے اور دنیا میں ہر چیز اُسی کے مطابق چلتی ہے۔ دین پر عمل کرنا ہی دین کی حفاظت ہے۔اگر مذہب کو صحیح طریقے سے سمجھ لیا جائے، تو معاشرے میں امن،ہم آہنگی اور خوش حالی آسکتی ہے۔مذہب کا مقصد تشدد یا مظالم کو فروغ دینا نہیں،بلکہ انسانیت کی خدمت کرنااور اسے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ موہن بھاگوت اس سے قبل بھی اسی طرح کے بیانات دے کر حکمراں جماعت اور زعفرانی تنظیموں کے رہنماؤں کو آئینہ دکھاچکے ہیں۔وہ پہلے ہی کہہ چکے کہ آر ایس ایس کا مقصد ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر تھا۔یہ کام مکمل ہو نے کے بعد اب کسی مسجد یا درگاہ کے نیچے مندر کے باقیات تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں امن و سکون کے ساتھ رہنے، دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے طریقے پر عبادت کرنے اور تہوار منانے کا بنیادی حق ہے۔
آر ایس ایس سپریمو موہن بھاگوت نے 19 دسمبر 2024کو پونے میں منعقد ’وشوگروبھارت‘ سے متعلق منعقدہ پروگرام ’ہندوسیوا مہوتسو‘ میں ’لیکچر سیریز‘ کا افتتاح کرتے ہوئے ملک میں جاری فرقہ وارانہ سیاست اور مندر و مسجد تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار کیاتھا۔اُنھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہاتھا کہ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ رام مندر جیسے مسائل کو اُٹھاکر راتوں رات ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں ،لیکن نہ تو ایسا کیا جانا ممکن ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔یہ لوگ معاشرے کی ہم آہنگی کو بے انتہا نقصان پہنچا رہے ہیں۔انھوں نے انتہا پسندی اور مذہبی عدم برداشت کی مذمت کرتے ہوئے اس رویے کو ہندوستانی ثقافتی اقدار کے خلاف بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ زورزبردستی کرنا اور دوسرے مذاہب کا احترام نہ کرنا، ہمارے کلچر کاحصہ نہیں ہے۔مساوات پر زور دینے والے موہن بھاگوت نے سوال کیا،’کون اقلیت ہے اور کون اکثریت؟ یہاں سب برابر ہیں۔‘ ہندوستان میں ہمیشہ سے ایک تکثیری معاشرہ رہا ہے اور اَب بھی ہے۔ ہر شہری کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دینا اس ملک کی دیرینہ روایت رہی ہے۔ ہمیں ہم آہنگی کے ساتھ رہنے اورقانون کی پاسداری کرنے کی تو ضرورت ہے ہی،دنیا کو یہ بتانے اور دکھانے کی بھی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ ملک ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہا تھا اور آگے بھی بغیر کسی پریشانی کے رہ سکتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی تکثیریت کو اُجاگر کرتے ہوئے آر ایس ایس چیف ڈاکٹر موہن بھاگوت نے انتہائی صاف گوئی سے کہا کہ صرف ہم ہی اس طرح کے صبرو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہم ہندو ہیں اور ہندوازم کا بنیادی فلسفہ ہی تحمل ا ور برداشت کے جذبے پر منحصر ہے ۔ ہمیں اس جذبے کو کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہئے۔یہ ہندوستان ہے اور اسے مختلف مذاہب اور نظریات کے ماننے والے افراد کی بقائے باہم کی مثال قائم کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگ تاریخی غلطیوں کو دوہرانے کی بجائے اُن سے سبق حاصل کریں اور ہندوستان کو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عالمی ماڈل بنانے کے لیے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے تنازعات سے ملک کا اتحاد اور آپسی بھائی چارہ درہم برہم ہوتا ہے۔اس لیے انھیں پھر سے زندہ کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹرموہن بھاگوت نے تسلیم کیا کہ ایودھیا کارام مندر ہندوؤں کی آستھا(عقیدت) کے لحاظ سے بڑا اہم تھا اور وہ اسے ہر حال میں تعمیر کرنے کے خواہاںتھے،لیکن اَب ہرروز ایک نیا معاملہ سامنے لایا جا رہا ہے،جو سماج اور اس کی ہم آہنگی کے لیے کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اس قسم کے معاملات سے انتشار پیدا ہوگا،جو ملک کی ترقی اور امن و امان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ نفرت کے مدنظر نئے تنازعات پیدا کرنے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت میں سوال یہ نہیں ہے کہ امن و آشتی اور قومی یکجہتی پر مشتمل ڈاکٹر موہن بھاگوت کے حالیہ بیانات قابل ستائش ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے اقتدار اور قدرومنزلت کے دَور میں موہن بھاگوت کی کوئی سنتا بھی ہے یا نہیں ؟ ملک کے امن پسند لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر آر ایس ایس چیف کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کے معنی اور مطلب کیا ہے؟ اس قسم کے بیانات سے وہ کسے خوش یا متاثر کرنا چاہتے ہیں؟ایک وقت تھا ، جب آر ایس ایس کی زبان سے نکلا جملہ ’فرمان شاہی‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ حکومت سازی، عہدے کے انتخاب اور وزارتوں کی تقسیم میں آر ایس ایس کا اہم کردار ہوتا تھا۔ سیاست میں اُونچا مقام رکھنے والے شخص کو بھی بھگوا دفتر سے ہری جھنڈی کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن کیا آج بھی ایسا ہی ہے؟ کیا آج کے آر ایس ایس میں پُرانے دور کے آر ایس ایس کی سی دھار اور دم خم باقی ہے؟ شاید نہیں! اگر ایسا ہوتا،تو نقارخانے میں طوطی کی آواز بھلے ہی سنائی نہ دیتی،لیکن میچ کے اَمپائر یا ریفری کی اُٹھی انگلی سے نکلا نتیجہ اسٹیڈیم میں موجودلوگوں کو ضرور دکھائی دینا چاہئے تھا۔
قومی یکجہتی اور معاشرتی ہم آہنگی کی نہج پر ڈاکٹر موہن بھاگوت کا بیان بھلے ہی کچھ تنگ نظر افراد کے حلق سے نیچے نہیں اُتر رہا ہو،لیکن ان کے بیان کی حزب اختلاف بھی تعریف کر رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کی کیرانہ سے پارلیمانی رکن اقرا ء حسن نے کہا کہ وہ پہلی مرتبہ موہن بھاگوت کی کسی بات سے متفق ہیں۔ حالانکہ اس کی شروعات وہیں (ایودھیا) سے ہوئی ہے ۔ انھیں کے بنا پر ترقی سے متعلق ایشوز کہیں نہ کہیں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ آر ایس ایس چیف کی طرح اُن کی پارٹی کو بھی ان باتوں پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ اُن کی کوشش ہے کہ سماج کا جوتانابانا ہے ، وہ بدستور بنا رہے اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ ہم سب اپنے ملک کی ترقی اور عوام سے جڑے ایشوزکے لیے کام کریں۔ ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کرنے والے افراد کو قطعی توجہ نہ دی جائے۔ بھاگوت جی کوجہاں اپنے ’شاگردوں‘ کے خلاف ’انضباطی کارروائی‘ کرنی چاہئے،وہیں اُن کی کہی بات پرحکمراں جماعت بی جے پی کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بے فیض اور بے مقصد مسائل کھڑے کرکے ماحول خراب کرنے کی بجائے ملک کی ترقی اور خوش حالی کے بارے میں سوچنا زیادہ اہم ہے۔ مسجد تنازعات پر موہن بھاگوت کے اظہار تشویش پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایوان بالا میںکانگریس کے رکن دگ وجے سنگھ نے کہا کہ اگر ہم ہندو-مسلم کی باتیں کرنے والے قائدین پر نظر ڈالیں، تو ہمارے سامنے سب سے بڑا ثبوت خود وزیراعظم نریندر مودی کی شکل میں موجود ہے ۔وہ وزیراعظم کو کیوں نہیں سمجھاتے؟ بھاگوت صرف بیان بازی کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں پر ظلم و زیادتی دیکھ کر کیوں خاموش رہتے ہیں؟اس میں شک نہیں کہ ان کا بیان مثبت ہے، لیکن اُنھیں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی’ سنگھ پریوار‘سے جڑی تنظیموں کو سمجھانا چاہئے ۔وہ انھیں کیوں نہیں روکتے؟ ڈاکٹر موہن بھاگوت کی زبان سے نکلے الفاظ اگر واقعی اُن کے دل کی آواز ہے،تو اُنھیں سیاسی ملمع اُتارکر ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لیے ان پر عمل کرنا اور کرانا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]