ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
شام میں آج ہر طرف انقلابیوں کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ الاسد خاندان نے مجموعی طور پر مکمل 61 برس تک اس عظیم ملک پر حکومت کی اور ظلم و جور کی تمام حدوں کو متجاوز کر دیا۔ کوئی ایسا مہلک ہتھیار نہیں جس کا استعمال روا نہ رکھا گیا ہو، بربریت کی کوئی قسم ایسی نہیں جس کے بے دھڑک استعمال میں بشار الاسد اور اس کے باپ و دادا نے ادنیٰ تامل سے کام لیا ہو۔ انسان کی حریت و آزادی زندگی کے ہر میدان میں ترقی کے لئے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اسی حریت کو سب سے زیادہ کچلا گیا۔ طرح طرح کے جیل اور ان میں تعذیب و توہین اور ظلم و قتل کے دل دوز طریقے یہ بتاتے ہیں کہ بشار الاسد کو اپنے عوام کی ترقی و خوش حالی کے بجائے انہیں اپنے جوتوں کے تلے روندنے اور ان سے ان کی انسانیت تک سلب کر لینے میں شدید دلچسپی پائی جاتی تھی۔ جیلوں کی داستان بشار الاسد کے طرز حکومت کی علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ بشار الاسد کا نظام خوف و نفرت کی پالیسی پر قائم تھا۔ ان داخلی وسائل کے ساتھ ساتھ بشار الاسد کو سہارا دینے اور اس کے دور حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی طور پر دو مزید طاقتیں تھیں جن سے اس کو غذا ملتی تھی۔ یہ طاقتیں روس اور ایران ہیں۔ ان خارجی طاقتوں کی بدولت بشار الاسد کو یہ گمان ہوچلا تھا کہ اب اس کے برے دن ختم ہوگئے ہیں اور دوبارہ سے اسے مقبولیت مل جائے گی۔
اس کا آغاز عرب لیگ میں واپسی سے ہو بھی گیا تھا، لیکن بشار الاسد نے ان طاقتوں کا صحیح صحیح اندازہ لگانے میں غلطی کی جو اس کے خلاف گزشتہ 13 برسوں سے نبرد آزما تھی اور اپنے مشن و مقصد سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوئیں۔ ان انقلابی طاقتوں نے ادلب کے ایک چھوٹے سے حصہ کو اپنے مستقبل کے بڑے مقاصد کے لئے ایک لیباریٹری کے طور پر استعمال کیا اور وہاں مستقبل کی ریاست کے لئے ہر میدان میں مطلوب افراد کو تیار کرنے کے عمل میں سنجیدگی سے لگ گئیں۔ ان انقلابیوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور خود کو ہر قدم پر بہتر بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ادلب سے حلب، حمص اور دمشق تک کامیابی کا جو سفر ہیئۃ تحریر الشام کی قیادت میں شامی فصائل نے طے کیا ہے اس میں ہتھیاروں کا استعمال برائے نام ہی ہوا ہے اور خوں ریزی سے پرہیز کو ہر حال میں فوقیت دی گئی۔ یہ کام آسان اتنا نہیں تھا۔ کیونکہ کسی بھی شہر پر قابض ہونے کے بعد ہی زیادہ بڑے چیلنجز سامنے آتے ہیں۔ شہر کے اندرونی نظام کو درست کرنا پڑتا ہے تاکہ انارکی نہ پھیل جائے۔ ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ امن و امان کے نظام کو چست درست رکھنا پڑتا ہے۔
ان تمام محاذوں پر اگر ہیئۃ تحریر الشام کو کامیابی نصیب ہوئی تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے 2017 کے بعد سے ہی اس پہلو پر توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ ان میں وہ قوت ارادی موجود تھی جس کی بدولت دنیا کی کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے۔ تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ ہتھیاروں سے جنگیں نہیں جیتی جاتی ہیں۔ فتح و شکست کا اصل فیصلہ انسان کے دماغ اور اس کی نفسیاتی قوت سے طے ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم لڑنے کی قوت ارادی سے محروم ہوجائے تو وہ مؤثر ترین ہتھیاروں کی موجودگی کے باوجود جنگ ہار جائے گی۔ اسی طرح وہ طاقتیں کبھی دائمی قوت حاصل نہیں کر سکتی ہیں جو باہر سے آئی ہوں اور جبرا ًزمین و ملک پر مقامی عوام کی مرضی کے خلاف قابض ہوگئی ہوں۔ شام کے عوام اور ان کے انقلاب پسند قائدین میں وہ قوت ارادی موجود تھی جس میں کبھی اضمحلال پیدا نہیں ہوا۔
انہوں نے صحیح وقت کا انتظار کیا اور لائق تنفیذ حکمت عملی کے ساتھ مناسب انداز میں پیش قدمی کی اور کامیاب ہوئے۔ باوجوداس کے کہ عالمی سطح پر یہ رائے قائم ہوچکی تھی کہ اب انقلابیوں کا دور ختم ہوا اور ان کی بساط سمیٹ دی گئی ہے۔ تقریبا یہی کیفیت اس وقت غزہ و فلسطین کی ہوگئی ہے۔ اہل فلسطین کا مقابلہ ایک ایسی بے رحم، ظالم اور تمام انسانی اقدار سے عاری قوم سے ہے جس کی نظر میں معصوم بچوں کو ٹکڑوں میں کاٹ کر شہید کردینا، ماؤں کو خاک و خون میں تڑپا دینا اور عمر رسیدہ بزرگوں تک پر رحم نہ کھانا فتح کی علامت بن چکا ہے۔ تمام طبی وسائل سے اسپتالوں کو محروم کرکے زخمیوں کو درد و کرب میں مبتلا کرنا اور انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دینا اور راحت و امداد کے تمام راستوں کو بند کرکے ان پر بموں کی برسات کرنا قوت کے اظہار کا ذریعہ بن گیا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے لئے سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اس قدر جری ہوچکا ہے کہ عرب کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے اور کسی بھی عالمی قانون کی پاسداری کو ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ مزاحمت کی تمام قوتوں کو کمزور کرنے اور حماس کے ممتاز قائدین کو شہید کر دینے کے بعد اسرائیل اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنا ارادہ اپنی مرضی کے مطابق نافذ کر سکتا ہے۔ اس جرأت کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر امریکی و مغربی حمایت ہے۔ لیکن کیا صرف اتنا کافی ہے؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ اب اسرائیل کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت باقی نہیں رہی ہے؟ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ نہتھے بزرگوں، معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کرنا کسی بھی فوج کے لئے کوئی بہادری نہیں بلکہ عار کی بات ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام تر جنگی وسائل اور جدید ترین ٹکنالوجی کے باوجود اسرائیل کو آج تک یہ کامیابی نہیں مل سکی ہے کہ وہ مزاحمتی جماعتوں کے قبضہ میں موجود اپنے یرغمال شدہ لوگوں کو آزاد کروا سکے۔ اس کے علاوہ مزاحمت کاروں کی اتنی بڑی تعداد آج تک میدان میں موجود ہے کہ ان سے اسرائیلی فوجیوں کو ہر لمحہ خطرہ لگا رہتا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اسرائیلی سپاہیوں کا شکار نہ کیا جاتا ہو یا ان کی توپوں کو تباہ نہ کیا جاتا ہو۔جہاں تک یمن سے جاری حوثی مزاحمت کا تعلق ہے تو اس سے نمٹنے کا کوئی وسیلہ اسرائیل کے پاس نہیں ہے اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق صہیونی ریاست کے پاس حوثیوں اور ان کے ہتھیاروں کے بارے میں معقول جانکاریاں تک نہیں ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کے مزاحمت کاروں میں وہ قوت ارادی موجود ہے جس کی وجہ سے ان کو صہیونی دشمن پر فتح ضرور ملے گی۔ اسرائیل کی بربریت ہی ایک دن اس کے لئے عذاب بن جائے گی۔ عالمی سطح پر نتن یاہو اور گالانٹ جیسے صہیونی لیڈروں کے خلاف مقدمے چلائے جائیں گے اور انہیں کیفر کردار کر تک پہنچایا جائے گا۔ عالمی برادری میں سے جو ممالک آج صہیونی جنگی جرائم کے پشت پناہ ہیں انہیں اپنے موقف پر سخت پشیمانی ہوگی اور وہ بھی اسی طرح معافی نامے پیش کرتے پھریں گے جس طرح آج فرانس و آسٹریلیا اور دیگر مغربی استعماری ممالک اپنے ماضی کے جرائم کے لئے معافی مانگ رہے رہیں۔ صہیونیت کی شکست اس لئے بھی مقدر ہے کیونکہ جنہوں نے اسرائیل کو قائم کیا تھا ان کا تعلق اس سرزمین سے کبھی نہیں رہا۔ وہ روس و امریکہ اور یوروپ سے بٹور کر لائے گئے تھے اور مذہب کی غلط تشریح کی بنیاد پر ایک افسانوی ریاست کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کی جڑیں بہت کھوکھلی اور اس کی تاریخ نہایت مشتبہ ہے۔
اس کی اخلاقی بنیادیں اس قدر کمزور ہیں کہ اس کی طویل زندگی کی ضمانت کوئی حقیقت پسند مورخ یا سیاسی مفکر نہیں دے سکتا۔ ان تمام داخلی کمزوریوں کے علاوہ اسرائیل کی شکست کی تخم اس بات میں پوشیدہ ہے کہ فلسطین کے مزاحمت کاروں اور عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں اپنی زمین، اپنی تاریخ و ثقافت اور اپنے دین و تہذیب سے اس قدر گہرا لگاؤ ہے کہ وہ اس کی راہ میں اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرنے سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ جب تک اہل فلسطین میں یہ قوت ارادی موجود ہے تب تک انہیں شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل کی قوت کا بھرم بھی محض ایک افسانہ ہی ہے کیونکہ اس کا وجود اپنی داخلی قوت کے بجائے خارجی بیساکھیوں پر ہے۔ جس دن یہ امریکی و مغربی بیساکھیاں کمزور ہوجائیں گی اس دن ظلم و جور کے اصولوں پر قائم یہ صہیونی ریاست اسی طرح اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب کر ختم ہوجائے گی جس طرح بشار الاسد کا نظام روسی و ایرانی بیساکھیوں کے ہٹتے ہی چند دنوں کے لئے بھی قائم نہ رہ سکا۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)