محمد تبارک حسین علیمی
اس دنیا میں ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ جان توڑ محنت بھی کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی محنت کا بدلہ بھی عطا فرماتا ہے اور وہ انسان کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو کامیابی دینی اعتبار سے ہو یا دنیاوی اعتبار سے انسان کی زندگی میں سکون پہنچاتی ہے اور خوشیاں لاتی ہے لیکن اگر کامیابی دینی اعتبار سے ہو تو ایک مسلمان دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور ایک مسلمان کے لیے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات کافی ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہم ان کو جانیں، سیکھیں اور ان کو اپنی زندگی میں نافذ کریں آئیے میں ایک حدیث بیان کروں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پانچ چیزیں شمار فرمائی پہلی چیز جو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی:
’’گناہوں سے بچو لوگوں میں عبادت گزار ہو جاؤ گے‘‘ لیکن ہمیں کیا لگتا ہے کہ عبادت گزار ہونے کے لیے ہمیں بہت زیادہ عبادتیں کرنی ہوں گی بہت زیادہ تہجد پڑھنی ہوں گی، نیکیاں کرنی ہوں گی، لیکن حدیث پاک میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ گناہوں سے بچو، اللہ کے حرام کی ہوئی چیزوں سے بچو تم لوگوں میں عبادت گزار ہو جاؤ گے تو اس سے کیا سمجھ میں آیا کہ گناہوں سے بچنا خود بہت بڑی نیکی ہے اور دوسری چیز جو ارشاد فرمائی: ’’اپنی قسمت پر راضی ہو جاؤ لوگوں میں غنی ہو جاؤ گے‘‘ لیکن ہمیں کیا لگتا ہے کہ بہت زیادہ مال و اسباب ہوں دھن دولت ہوں بلڈنگیں ہوں نوکر چاکر ہوں تب ہم بہت مالدار ہوں گے، لیکن اس حوالے سے ہمیں دوسری احادیث میں روشنی ملتی ہیں کہ پیارے آقاؐ نے ارشاد فرمایا کہ مالداری مال و اسباب کی زیادتی کا نام نہیں کہ مال و اسباب بہت زیادہ ہوں تو بندہ مالدار ہو جائے گا ،مالداری تو دل کی تونگری کا نام ہے دل کی بے نیازی کا نام ہے، ہمارا دل بڑا ہو جائے تو یہی مالداری ہے اور تیسری چیزجو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ۔
’’پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو مومن بن جاؤ گے‘‘۔اس حوالے سے بھی ہمیں دوسری احادیث میں روشنی ملتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو یعنی وہ شخص مومن کامل نہیں ہے ،جس کا پڑوسی اس کی تکلیف سے محفوظ نہ ہو۔ اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ چاہے پڑوسی مسلم ہو یا غیر مسلم ہم کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ جو پڑوسیوں کو ستاتا ہے اس سے قیامت کے دن حساب لیا جائے گا چاہے غیر مسلم کو ہی کیوں نہ پہنچائے بلا عذر شرعی غیر مسلم کو بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ چوتھی چیز جو ارشاد فرمائی:’’لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو کہ تم مسلمان ہو جاؤ گے‘‘۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے لیے اچھی چیزیں پسند کرتے ہیں اور دوسروں کیلئے اچھی چیزیں پسند نہیں کرتے اسلئے ہمیں اس حدیث پاک سے درس ملتا ہے کہ ہمارے بھائی ہوں، رشتہ دار ہوں، ہر کسی کے لیے اچھی چیزیں پسند کرنی چاہیے، اچھی چیزیں دینی چاہیے کیونکہ یہ اسلام کی اچھی تعلیمات میں سے ہے۔