کیا یہ ملک اکثریتی طبقے کی مرضی کے مطابق چلے گا؟: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ

0

محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ

یہ ظاہر سی بات ہے کہ جب دو افراد کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے تو اکثر ایک دوسرے سے کہتے ہیں، ’’عدالت میں دیکھ لوں گا۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی لوگوں کا عدالتوں پر بھروسہ قائم ہے۔ ان کا کامل یقین ہے کہ جب حکومت، انتظامیہ اور پولیس ان کی بات نہیں سنیں گیں، تو عدالت ضرور انصاف دے گی۔ کرسی پر بیٹھے ہر جج کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعتماد کو ٹوٹنے نہ دے، لیکن جب عدالت کے اعلیٰ عہدے دار خود آئین کے بجائے مذہبی نظریات پر مبنی فیصلوں کی بات کریں گے، تو یہ بھروسہ متزلزل ہو جانا لازمی چیز ہے۔مثال کے طور پر، جب چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ جیسے معزز جج یہ بیان دیں کہ فیصلے بھگوان سے مشورہ کر کے لکھے جا رہے ہیں، یا جب الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر یادو وشو ہندو پریشد کے اسٹیج پر جا کر اپنے ذاتی مذہبی عقائد کا اظہار کرتے ہیں ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عدلیہ کی غیر جانبداری کہاں کھڑی ہے؟ مزید برآں، جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کا کلکتہ ہائی کورٹ سے استعفیٰ دے کر بی جے پی کی جانب سے انتخابات لڑنے کا اقدام، یا سپریم کورٹ کے جج اے آر دوے کا یہ کہنا کہ ’’اگر میں تانا شاہ ہوتا تو پہلی جماعت سے گیتا پڑھوانے کی شرط عائد کر دیتا‘‘، اس کے لوگوں سے عدلیہ پر عوامی اعتماد کو مزید نقصان پہنچاتا ہے۔

یہ ایک سنگین مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ عدالتیں آئین کی بنیادپر قائم ہیں اورہرجج آئینی حیثیت رکھتا ہے۔آئین نے مذہب کے بجائے شہری حقوق کو اولین ترجیح دی ہے اور ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جج کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہو رہی ہے۔ اگر جج ذاتی نظریات یا مذہبی وابستگی کو آئینی اصولوں پر فوقیت دیں گے، تو عدلیہ کے وقار اورغیرجانبداری پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ عدالتوںپراعتماد کوبرقراررکھنے کیلئے ضروری ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری اور آئینی ذمہ داریوں کو پورے عزم کے ساتھ نبھائے۔ یہی عدلیہ کی اصل طاقت ہے اور یہی عوام کا حقیقی تحفظ۔

لائیولا نے جس شیکھر کے بیان کو قلم بند کیا ہے، اس پر کوئی شبہ نہیں کہ یہ ہندوستان کے آئینی اقدارپر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ ان کا کہنا کہ ’’یہ ملک اکثریتی طبقے کی مرضی کے مطابق چلے گا‘‘ ۔ یہ نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے بھی برعکس ہے۔ کسی بھی جج کیلئے یہ کہنا کہ قانون اکثریت کے حساب سے کام کرے گا،ان کے آئینی حلف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آئین نے ہر شہری کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا ہے، اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری اسی آئینی ڈھانچے کا حصہ ہے۔مزید برآں انہوں نے مسلمانوں کا نام لیے بغیر ان کے وجود کو ملک کیلئے خطرہ بتاتے ہوئے ایسی باتیں کہیں جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ چار شادیوں اور دیگر مذہبی معاملات پر ان کے تبصروں نے نہ صرف ایک طبقے کو نشانہ بنایا بلکہ عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار پر بھی گہرا دھچکا لگایا ہے۔اس بیان پر سپریم کورٹ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو سے پوچھ تاچھ کی اور انہیں اپنے آئینی عہدے کے وقار کو برقرار رکھنے کی سخت تلقین کی۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے پارلیمنٹ میں ان کے خلاف عظیم فرد جرم (مہا ابھی لوگ) کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، جو ان کے عہدے کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ان کا روسٹر تبدیل کر دیا اور انہیں تمام اہم معاملات سے ہٹا دیاہے۔ اس کے علاوہ شیکھر یادو کو دوبارہ سپریم کورٹ میں طلب کیا جا سکتا ہے تاکہ ان سے مزید پوچھ گچھ کی جا سکے۔ یہ پورا معاملہ نہ صرف عدلیہ کی غیر جانبداری کیلئے ایک امتحان ہے بلکہ آئینی اقدار کی حفاظت کیلئے بھی ایک اہم موقع ہے۔ عدلیہ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہر شہری، چاہے وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، مساوی انصاف اور تحفظ حاصل کرے۔ یہی ہندوستان کی اصل روح ہے اور یہی اس کی جمہوریت کی بنیادبھی ہے۔ جسٹس یادو کے بیان نے نہ صرف قانون کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے بلکہ عدالتوں کے کام کرنے کے طریقے پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ انہوں نے آئین کے بجائے ’’اکثر یت کی مرضی‘‘سے ملک اور قانون کے کام کرنے کی بات کہی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ’’اکثریت‘‘سے ان کی مرادکیا ہے؟ کیا یہ عام ہندو عوام ہیں یا پھر اکثریت کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت اور اس کی مدد گار تنظیم کے افراد ہیں؟
اگر عام ہندو اس اکثریت کاحصہ ہیں، توپھردوہندو فریقوں کے درمیان تنازعہ میں قانون کس کے حق میں کام کرے گا؟ اور کیا ہندو کسان اور خواتین کو بھی اس اکثریت میں شامل مانا جائے گا؟ اگر ہاں، تو پھر ان کی ایم ایس پی (کم از کم سپورٹ پرائس) کی گارنٹی کی مانگ کیوں پوری نہیں کی جا رہی؟ یاد رہے کہ2020 میں ایک سال کے طویل احتجاج کے بعدکسانوں نے وزیر اعظم کی جانب سے کمیٹی بنانے اور ایم ایس پی کی گارنٹی دینے کے وعدے پر اپنا احتجاج ختم کیا تھا۔ اس دوران 700سے زائد کسانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن آج تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ کسان مسلسل اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، دہلی کی سرحدوں پر جمع ہیں، لیکن انہیں دہلی میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔

مزید یہ کہ 11 کروڑ کسانوں کو ’’کسان سمان ندھی‘‘ کے تحت امداد دی جاتی ہے۔ اگر ان کسانوں کو اکثریت مانا جا رہا ہے، تو ان کے مطالبات کے مطابق فیصلے کیوں نہیں کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوال صرف کسانوں تک محدود نہیںہے، بلکہ خواتین، مزدور اور دیگر طبقات کے حقوق پر بھی اٹھتا ہے۔اکثریت کی تعریف کو مذہب یا سیاست تک محدود کرنے کے بجائے، اس میں تمام شہریوں کے حقوق اور ضروریات کو شامل کرنا ہوگا۔ یہی جمہوری نظام کی بنیاد ہے اور اسی پر ملک کے آئینی ڈھانچے کی مضبوطی منحصر ہے۔ خواتین کے خلاف زنا، قتل اور زیادتی جیسے سنگین جرائم کی خبریں آج بھی میڈیا کی سرخیوں میں نظر آتی ہیں۔ رحم مادر میں بچیوں کا قتل عام ہے اور آزادی کے ستر سال بعد بھی خواتین کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ کیا وہ اکثریت کا حصہ نہیں ہیں؟ پھر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی دلت، آدیواسی یا کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون انصاف کی دہائی دیتی ہے، تو قانون اور انتظامیہ طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کے حق میں کھڑے نظر آتے ہیں؟

ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور آدیواسی آبادی کا ملک میں ایک بڑا حصہ ہے، لیکن کیا ملک ان کے مفادات کے مطابق چلتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اہم اداروں میں ان کی نمائندگی کیوں نہ ہوتی؟ ملک کے 60 ٹاپ سکریٹریز میںسے دو کو چھوڑ کر باقی سب اعلی ذات کے ہندو کیوں ہیں؟ ہمارے بزرگوں نے ملک کو مذہب یا اکثریت کی مرضی کے بجائے آئین کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ہر شہری کو تحفظ، انصاف، ترقی اور مساوی حقوق حاصل ہوں۔ آئین صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ یہ انصاف اور مساوات کا ضامن ہے۔ اس کو بنانے کیلئے طویل غور و فکر کیا گیا۔ دو سال، گیارہ ماہ اور 18 دنوں کی سخت محنت کے بعد 26 نومبر 1949 کو آئین تیار ہوا۔

آئین ساز کمیٹی کے ممبران کی تعداد ابتدا میں 294 تھی، جو بعد میں 288 رہ گئی۔ اس کمیٹی میں ہر طبقے کے نمائندے شامل تھے، تاکہ آئین سبھی کے لیے یکساں ہو۔ کنک تیواری نے اپنی کتاب آئین ایک شناخت میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے بتایا تھا کہ آئین کو بنانے کے عمل میں 63 لاکھ 96 ہزار 729 روپے خرچ ہوئے۔یہ رقم اور وقت اس غریب ملک نے اس لیے خرچ کیا تھا کہ ہر فرد کو برابر کا حق دیا جائے، نہ کہ اکثریت کی مرضی سے ملک چلایا جائے۔اگراکثریت کی خواہش ہی سب کچھ طے کرتی، تو یہ محنت اور وسائل کیوں خرچ کیے گئے؟ آئین کا مقصد یہی تھا کہ ہر شخص، خواہ وہ کسی بھی طبقے یا مذہب سے ہو، اپنے حقوق کا تحفظ محسوس کرے اور انصاف کا حق دار ٹھہرے۔ یہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، نہ کہ اکثریت کے دباؤ پر۔جس ملک میں ایسا ہونے لگا تو سمجھ لیناکہ اس ملک میں اب قانون برقرا ر نہیں ہے اور کسی بھی وقت قانونی چارہ جوئی کی کوششیں تیز ہوسکتی ہیں جونہ ملک کے لیے ٹھیک ہو گا اور نہ ہی ان کے باشندوں کے لیے ٹھیک ہوگا۔

سپریم کورٹ نے بارہا واضح کیا ہے کہ آئین کی بنیاد ناقابل تغیر ہے اور اس کی روح پر اکثریت کی مرضی مسلط کرنا آئین پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ ایسے میں جسٹس شیکھر یادو کا یہ کہنا کہ یہ ملک اکثریت کی مرضی سے چلے گا، نہایت حیران کن ہے۔ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کے نیتا ہیں اور نہ ہی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے رکن۔ ان کی حیثیت ایک آئینی شخص کی ہے اور آئین کا تقاضا یہ ہے کہ سب شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ ایک جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر صورت میں آئینی اصولوں کی پاسداری کرے۔ دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں فسطائیت اکثریت کے نام پر قانون کا سہارا لے کر عوام کے حقوق چھینتی رہی ہے۔ ایسے نظام میں قانون اکثریت کے مفادات کے تابع ہو جاتا ہے اور فرد کے حقوق پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ اگر کسی شہری کے بنیادی حقوق کی قدر ختم ہو جائے، تو آئین کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور قانون محض ایک بے جان کتاب بن کر رہ جاتا ہے۔

اگر عدلیہ کی غیر جانبداری متاثر ہو جائے، تو انصاف کا تصور معدوم ہو جاتا ہے۔ راستہ خراب ہو تو کیچڑ سے گزرا جا سکتا ہے، لیکن اگر عدلیہ میں خرابی پیدا ہو جائے، تو معاشرہ چین کی سانس نہیں لے سکتا۔ عدلت وہ ستون ہے جو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اگر کبھی آپ کو انصاف کی ضرورت پڑے اور عدلت پر اعتماد متزلزل ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ انصاف کیلئے کہاں جائیں گے؟ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدلیہ کا وقار اور آئین کی بالادستی کسی بھی جمہوری نظام کی بنیادہے۔ اگر اس بنیاد کو اکثریت کی مرضی کے بوجھ تلے دبایا جائے، تو معاشرتی انصاف اور مساوات کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

درحقیقت 2014 کے بعد ملک کے سیاسی ماحول کو دانستہ طور پرایک مخصوص نظریے کی حمایت میں تبدیل کیا گیا تاکہ ایک خاص جماعت یعنی بی جے پی اقتدار پر قابض رہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے ایک منظم حکمت عملی کارفرما تھی، جس نے ان افراد کو آگے بڑھایا جو اس جماعت کے نظریے سے مطابقت رکھتے تھے یاخودکواسکے تابع بنا لیا۔ موقع پرست عناصر نے اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اور فرقہ واریت، نفرت، اور بدعنوانی کے حامل ذہن رکھنے والے افراد نے بھی اپنی جگہ بنا لی۔یہی وہ جماعت تھی جو ایک وقت میں اقتدار حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی، لیکن آج اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ اس کا راز مسلم دشمنی اور فرقہ وارانہ نفرت کے ذریعے اپنی بنیاد کو مضبوط کرنا تھا۔ ہر وہ شخص جو اقتدار کے قریب ہونا چاہتا تھا، اس دوڑ میں شامل ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں سبقت لے جانے لگا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان کے ہر شہری کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اس ملک کو اس تباہ کن صورتحال سے کیسے بچایا جائے۔ نفرت کے اس زہر نے معاشرتی ہم آہنگی کو کھوکھلا کر دیا ہے اوراگر انصاف پسند شہری ابھی بھی خاموش رہے، تو یہ زہر پورے ملک کو اپنی زدمیں لے لے گا۔یہ حقیقت ہے کہ عوام ہی اس بدلتے منظرنامے کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔اگر آج سب مل کر نفرت کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار نہیںکیے ، تو مستقبل میں ایک جمہوری اور انصاف پسند بھارت کا تصور محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS