جنگ جب تک جاری رہتی ہے، اس میں شدت آنے یا اس کی توسیع کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔ یوکرین جنگ کے جاری رہتے ہوئے بھی یہ اندیشہ ہے لیکن وعدے کے مطابق یہ جنگ ختم کرانے میں بھی ٹرمپ اگر کامیاب ہو جائیں گے تو ایسا لگتا نہیں کہ روس کے ناٹو ممالک سے تعلقات معمول پر آجائیں گے، ان کے حوالے سے روس کو کوئی شبہ نہیں رہے گا یا ناٹو ممالک یہ مان لیں گے کہ روس نے یوکرین پر حملہ ضرور کیا، مستقبل میں وہ کسی اور یوروپی ملک یا ناٹو ملک پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ناٹو ممالک امریکہ کی بات ٹالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ناٹو میں چلتی امریکہ کی ہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ناٹو کی تشکیل سے قبل امریکہ نے پہلے ’ٹرو مین ڈوکٹرین‘ متعارف کرایا تھا، پھر ’مارشل پلان‘۔ اسی مارشل پلان کے تحت امریکہ نے جنگ سے متاثرہ مغربی یوروپ کے ممالک کی مدد کی تھی۔ ناٹو ممالک اس مدد کو بھول سکتے ہیں مگر یہ نہیں بھول سکتے کہ روس کے خلاف جنگ میں وہ یوکرین کی مدد کر چکے ہیں اور اس مدد کی وجہ سے وہ روس کے نشانے پر رہیں گے۔ ایسی صورت میں ناٹو سے ان کی علیحدگی انہیں بھاری پڑے گی اور اگر ناٹو کا حصہ بن کر رہیں گے تو انہیں امریکہ کی بات ماننی ہی ہوگی۔ حقائق سے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے وزرا واقف ہیں۔ اسی لیے روس نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ناٹو سے جنگ کے لیے وہ تیاری کرے گا، خود کو اس پوزیشن میں رکھے گا کہ ناٹو سے براہ راست جنگ کی صورت میں اسے پسپا نہ ہونا پڑے۔ روس کے وزیر دفاع آندری بیلوسوف نے کہا ہے کہ اگلی ایک دہائی میں یوروپ میں فوجی اتحاد ناٹو سے جنگ کے لیے روس تیاری کرے گا۔ امریکہ کے ملٹری ڈوکٹرین اور جولائی، 2024 میں کے حوالہ دیتے ہوئے آندری بیلوسوف کا کہنا ہے کہ ناٹو سے براہ راست ٹکراؤ کے لیے آنے والے برسوںمیں روس کو تیاری کرنی ہے۔ ایٹمی فورسز کی جدیدکاری کا امریکی منصوبہ، پولینڈ میں امریکہ کا میزائل ڈیفنس بیس، ناٹو کے تیزی سے جنگ کے لیے تیار رہنے کے نئے منصوبوں کا اعلان اور ناٹو کے اجلاس میں جرمنی میں 2026 میں امریکہ کی میڈیم رینج میزائلوں کی تنصیب روس کے دائرۂ تشویش سے باہر نہیں۔ روسی وزیر دفاع آندری بیلوسوفکا کہنا ہے کہ امریکہ کو جلد ہی ایسی ہائپر سونک میزائلیں دستیاب ہو سکتی ہیں جو آٹھ منٹ میں ماسکو تک پہنچ سکتی ہیں، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ یوکرین جنگ جاری رہے یا ختم ہو جائے، روس ناٹو سے براہ راست ٹکرانے کے لحاظ سے تیاری کرتا رہے گا، بھلے ہی ٹکرانے کی نوبت نہ آئے۔
آندری بیلوسوف کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، اس سال 430,000 روسیوں نے آرمی کانٹریکٹ پر دستخط کیے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے 300,000 سے زیادہ ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی فوج میں تقرری کا مطلب سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل ولادیمیر پوتن کے روس نے یوکرین کے خلاف اب تک کی جنگ سے یہ بات سمجھ لی ہے کہ تیاری ہر لحاظ سے کرنی ہوگی، فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی تاکہ ضرورت کے وقت میں فوجیوں کی کمی نہ ہو۔ پوتن کا حوصلہ اس لیے بھی بڑھا ہوا ہے کہ غزہ جنگ نے روس کو حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا اور اس نے فائدہ اٹھایا۔ پوتن کا ماننا ہے کہ یوکرین جنگ روس کے حق میں جا رہی ہے۔ اسے آندری بیلوسوف کے اس اعداد سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس سال روسی فوجیوں نے 4,500 مربع کلومیٹر سے یوکرینی فوجیوں کو کھدیڑ دیا ہے اور 30 مربع کلومیٹر پر روزانہ قبضے کر رہے ہیں ۔
ان تمام باتوں کے باوجود دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف لے لینے کے بعد امریکہ کی پالیسی کیا رہتی ہے۔ پچھلی مدت صدارت میں ٹرمپ نے زیادہ زور چین پر صرف کیا تھا، فی الوقت یہی لگتا ہے کہ اس بار بھی وہ ایسا ہی کریں گے، کیونکہ ٹرمپ جانتے ہیں، چین اور روس سے ایک ساتھ لڑنا امریکہ کے حق میں نہیں ہوگا۔ اس کے منفی اثرات امریکہ پر پڑیں گے ۔ غالباً اسی لیے ولادیمیر پوتن سے ان کے اچھے تعلقات کی باتیں کہی جاتی ہیں جبکہ ٹرمپ کی دوست اور دشمن کے سلسلے میں واضح پالیسی ہے- دوست اگر ہو تو استعمال ہوتے رہے اور اگر دشمن ہو تو پھر نیست و نابود ہو جاؤ۔ اگر یوروپی ملکوں نے پوری طرح ان کا ساتھ دیا ہوتا تو وہ کورونا کے بہانے چین کو سبق سکھانے کے لیے تیار تھے مگر پوتن بھی ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔ یہ سب پوتن بھی سمجھ سکتے ہیں، شی جن پنگ بھی، اس لیے روس اور چین کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کا امکان ہے۔
دراصل ولادیمیر پوتن جانتے ہیں کہ حالات کیسے پیدا کرنا ہے، حالات کا استعمال کیسے کرنا ہے اور برے حالات میں کیا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پابندیوں کے باوجود روس یوکرین کی جنگ جاری رکھ سکا ہے، اس کی اقتصادی حالت بد سے بدتر نہیں ہوئی ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہے کہ کئی یوروپی ممالک خدشات میں مبتلا ہیں۔ انہیں اس بات کا اطمینان نہیں ہے کہ یوکرین جنگ یوکرین تک ہی محدود رہے گی، اس میں توسیع نہیں ہوگی۔