پروفیسر مشتاق احمد
شام کی تاریخ میں حیات تحریر الشام جسے دنیا عسکریت پسند گروپ کہہ رہی ہے، اس نے بغیر خونریزی کے بشارالاسد کو حکومت سے بے دخل کردیا ہے اور وہ شام چھوڑ کر ماسکو میں پناہ گزیں کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی تاریخی تبدیلیٔ اقتدار ہے۔ حیات تحریر الشام نے یہ جنگ فتح تو کرلی ہے لیکن اس کے سامنے ایک طرف شام کے اندرونی خلفشار پر قابو پانا ہے تو دوسری طرف اپنی حکومت کو دنیا سے منوانا بھی ہے، کیونکہ امریکہ جیسے سپر پاور ملک نے حیات تحریر الشام کے لیڈروں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جس کی وجہ سے عالمی سیاست کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ وہ شام کی نئی قیادت کو قبول کرے یا نہیں۔ شام میں جو کچھ ہوا ہے، وہ نصف صدی کا ایک المیہ ہے کہ بشارالاسد اور ان کے والد حافظ الاسد نے 53 برسوں تک شام پر آمرانہ حکومت کی ہے۔ لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے، لاکھوں کو سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور کیا گیا اورلاکھوں لوگ جلا وطنی پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ محض پندرہ دنوں میں اسد حکومت کے خلاف حالات اتنے بد تر ہوگئے کہ انہیں خود جلا وطن ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
بہر کیف! اب جب شام میں نئی قیادت کو وہاں کے عوام نے قبول کر لیا ہے اور ملک میں چہار طرف جشن کا ماحول ہے، ایسے وقت میں عالمی سیاست کی نگاہ شام پر مرکوز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد روس اور ایران کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے، کیونکہ اسد حکومت کو مستحکم کرنے میں ایران اور روس دونوں کی حکمت عملی کام کرتی رہی ہے مگر وہ اس بار ناکام رہے ہیں۔ ایک طرف روس کے لیے شام کی بڑی اہمیت تھی کہ وہاں اس کے فوجی دستے کی تعیناتی کے ساتھ تجارتی مفاد بھی تھے تو دوسری طرف ایران شام کے ذریعے اسرائیل کی بالا دستی پر نکیل کس رہا تھا اور حزب اللہ کی بدولت وہ وہاں دبدبہ بنائے ہوا تھا۔ حال کے دنوں میں چین کی بھی نظر شام پر تھی۔ گزشتہ سال جب بشارالاسد کی ملاقات شی جن پنگ سے ہوئی تھی تو شام میں ملٹری ٹریننگ کے لیے چین سے مدد مانگی تھی اور اس لیے اب چین کی بھی ہمدردی بشارالاسد سے تھی لیکن حالیہ انقلاب نے روس، ایران اور چین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ جنوری میں امریکہ کو نئی قیادت ملے گی کہ ٹرمپ کی حلف برداری 20 جنوری، 2025 کو ہونی ہے، اس کے بعد ناٹو کی سیاست کا قبلہ بھی تبدیل ہوگا۔ امریکہ کی ترجیحات میں روس اور ایران کو کمزور کرنا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ بندی صرف اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ امریکہ اور ناٹو کے ممالک روس کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور ایران پر بھی ان کی ٹیڑھی نگاہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شام میں نئی قیادت کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر کون کون سا ملک اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایک طرف ترکیہ ہے جس کا اپنا مفاد ہے کہ وہ شام میں فعال کرد عسکریت پسندوں کا خاتمہ چاہتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل ہے جو گولان کی پہاڑی کے ساتھ شام کے دوسرے علاقوں میں قدم جمانے کی فکر میں ہے، اس لیے شام میں ا س نے اسلحہ جات کے کئی ذخائر کو نشانہ بنایا ہے اور وہاں کے ہوائی اڈے کو تباہ کر ڈالا ہے۔ اسرائیل کے سر پر امریکہ کا ہاتھ ہے اور امریکی پشت پناہی کی بدولت ہی وہ غزہ میں گزشتہ 14 مہینوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود جنگ بند نہیں ہو پا رہی ہے اور اب وہ بے لگام ہو کر شام میں بھی بربریت کا مظاہرہ کر رہاہے جبکہ اقوام متحدہ کے بیشتر ممبر ممالک نے بنیامن نیتن یاہو کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔
دراصل اب شام کی آڑ میں امریکہ اور ناٹو ممالک روس کو کمزور کرنے کی نت نئی چال چلیں گے کہ شام کی نئی قیادت کی بھی اپنی مجبوری ہے کہ وہ ایک ساتھ کئی مورچوں کو نہیں سنبھال سکتی، اس لیے کہ اقوامِ متحدہ کے لاکھ جتن کے بعد بھی نیتن یاہو بے قابو ہیں اور اسرائیلی فوج غزہ کے ساتھ شام میں تباہی مچا رہی ہے۔ روس اور ایران دونوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں کہ شام میں بشارالاسد کے حامیوں کی تعداد دنوں دن کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی حکومت میں شامل وزرا اور اعلیٰ عہدے دار بھی نئی قیادت کے ساتھ ہیں۔ اب ایران اور روس دونوں کے لیے آزمائش کا وقت ہے کہ وہ کس طرح عالمی سیاست کی شطرنجی چال کے چنگل سے نکلتے ہیں۔ اس وقت تو شام میں عبوری حکومت ہے اور جب تک کوئی باضابطہ حکومت قائم نہیں ہوتی ہے، اس وقت تک شام میں اضطرابی اور کشمکش کے حالات رہیں گے، کیونکہ حیات تحریر الشام کے جن لیڈروں کے ہاتھوں میں شام کا اقتدار ہے، انہیں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ تو کیا شام میں کوئی جمہوری اقدار والی حکومت تشکیل پا سکتی ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے یا پھر وہاں جتنے گروپ ہیں، ان سبھوں میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے اور وہ سبھی عوام کی امیدوں پر کھڑے اتریں گے، یہ ایک لاکھ ٹکے کا سوال ہے۔
مختصر یہ کہ شام میں قیادت کی تبدیلی ہوگئی ہے، اقتدار نئے ہاتھوں میں آگیا ہے لیکن شام کی خود مختاریت کو محفوظ رکھنا اس نئی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ اس وقت عالمی سیاست شام کو اپنی للچائی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور ایران اور روس دونوں کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ہے، اس لیے شام کے حامیوں کو جشن منانے سے کہیں زیادہ اس عالمی سیاست کی شطرنجی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں مغربی طاقت اس تبدیلی کا فائدہ اٹھا کر شام کے وجود کو ہی ختم نہ کر دے، کیونکہ شام میں جو کچھ ہوتا رہاہے اور فی الوقت جو تبدیلی آئی ہے، اس کے پس پردہ عالمی سیاست اپنی بساط پر مہرے چلتی رہی ہے۔ شام محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ و تہذیب کا مرکز بھی ہے جہاں ابتدائی صدیوں میں نہ صرف اسلام کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اسی سرزمین سے علم وہنر کی نئی روشنی پھیلی جس نے پورے عالم اسلام کو روشن کیا۔ اب جبکہ اسلام کے نام پر نئی قیادت اس تاریخی سرزمین کو اس کا وقار واپس دلانے کا عہد کر رہی ہے تو اسلامی دنیا کو بھی اس پر نگاہ رکھنی ہوگی۔ یہ ایک اچھی پہل ہے کہ شام پر اسرائیلی حملے کی مسلم ممالک نے مذمت کی ہے اور بالخصوص سعودی عرب نے ناراضگی ظاہر کی ہے۔
یہ ایک نازک وقت ہے۔ اگر اسلامی ممالک شام کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پوری دنیا میں ایک نئی امید پیدا ہوگی اور اسلامی ممالک کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ جیسا کہ ایران کا موقف رہا ہے کہ وہ شام کو قدیم تاریخی حیثیت دینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتاہے۔