ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی وراثت پر سیاست کا موضوع ایک بار پھر مرکز بحث بن گیا ہے اور اس تنازع نے ملکی سیاست میں نیا پنڈورہ باکس کھول دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان جس میں انہوں نے کہا کہ امبیڈکر کا نام لینا ایک فیشن بن گیا ہے،نے ایک سیاسی طوفان کو جنم دیاہے۔امت شاہ کا یہ کہنا کہ اگر لوگ اتنی بار خدا کا نام لیتے تو انہیں جنت مل جاتی،دراصل ایک چیلنج ہے،جو بہت سے لوگوں کیلئے ناقابل قبول تھا۔ ان کا یہ بیان نہ صرف امبیڈکر کی عظمت کو کم کرنے کی کوشش تھی بلکہ اس سے ان کی شخصیت اور ان کے نظریات کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کا تاثر بھی ملتا ہے۔
اس تنازع کا اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امبیڈکر کا نام لینا فیشن بن چکا ہے یا نہیں،بلکہ یہ ہے کہ امبیڈکر کی شخصیت اور ان کے نظریات کو موجودہ سیاست میں کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امبیڈکر کی خدمات اور ان کی سیاسی وراثت کا ایک خاص مقام ہے جو آج بھی ہندوستان میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی جدوجہد، ان کے نظریات اور ان کی زندگی کا مقصد سماجی انصاف، مساوات اور دلتوں کے حقوق کی حفاظت تھا۔ یہ سب باتیں امبیڈکر کی وراثت کا حصہ ہیں، جنہیں صرف سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا،ان کی توہین کے مترادف ہے۔
امت شاہ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ کانگریس پارٹی امبیڈکر کے نظریات کے خلاف ہے اور انہوں نے بی جے پی کو امبیڈکر کی وراثت کے محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ تاہم،یہ دعویٰ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت کے تحت آج تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ امبیڈکر کے نظریات کے برعکس ہیں۔ ان کی زندگی کی جدوجہد کا مقصد دلتوں اور محروم طبقات کے حقوق کی حفاظت تھا،لیکن موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں دلتوں کے حقوق کی پامالی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد عام ہے۔ کیا یہ وہ امبیڈکر کی وراثت ہے جس کی بی جے پی محافظ بن کر بات کرتی ہے؟ یہی سوال ہے جو سیاست کے اس کھیل میں اہمیت رکھتا ہے۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اس بیان کے بعد امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کا یہ بیان امبیڈکر کے آئینی نظریات کی توہین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی ایک ایسی جماعت ہے جو منواسمرتی پر یقین رکھتی ہے،جو امبیڈکر کے آئین کے نظریات کے خلاف ہے۔ یہ بیان سیاسی طور پر اہم ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتوں کے درمیان ایک بڑی فکری تفریق کو واضح کرتا ہے۔ بی جے پی کے دعوے کے باوجود، اس کا عمل امبیڈکر کے نظریات کے بالکل برعکس نظر آتا ہے،جو سماجی مساوات اور عدلیہ کے ذریعے اقلیتوں اور محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔
دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بھی اس معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مایاوتی نے کہا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کو امبیڈکر کے نظریات کا احترام کرنا چاہیے اور ان کا استعمال سیاسی فائدے کیلئے نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دلتوں اور پسماندہ برادریوں کیلئے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہی واحد رہنما ہیںاور ان کی خدمات کو کسی بھی قسم کے سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ مایاوتی نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی اور کانگریس دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے حوالے سے محض زبانی دعوے کرتی ہیں،مگر ان کے اقدامات میں ان کمیونٹیز کے مفادات کی حقیقی خدمت نہیں کی جاتی۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کے حقوق کیلئے جدو جہد کی تھی اور ان کے نظریات نے سماجی مساوات اور انصاف کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کے نظریات میں آئین کے ذریعے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینا اور پسماندہ طبقات کیلئے ترقی کے دروازے کھولنا شامل تھا لیکن موجودہ حکومت کے تحت، ان کے نظریات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان طبقات کے حقوق کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔
اس تمام تنازع کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت صرف ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی۔ ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد کو صرف انتخابی فائدے کیلئے استعمال کرناسراسر ان کی توہین ہے۔اس تنازع نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم واقعی امبیڈکر کی وراثت کو صحیح معنوں میں سمجھ پائے ہیں؟ کیا ہم ان کے نظریات کو عملی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ جواب واضح ہے کہ نہیں۔ امبیڈکر کی وراثت کا مطلب صرف ان کے نام کا استعمال نہیں ہے،بلکہ ان کے نظریات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ ہمیں سیاست کے اس کھیل سے باہر نکل کر ان کے نظریات کو اپنے معاشرتی ڈھانچے میں جڑوں تک لانا ہوگا تاکہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جہاں مساوات، انصاف اور بھائی چارہ سرفہرست ہوں۔