پروفیسر محمد قطب الدین
عربی زبان سامی زبانوں کی ایک شاخ ہے جو اپنے مستحکم و سائنٹفک اصول و قواعد، نزاکت بیان،اعجازوایجاز،مترادفات واضداد،ایک ہی مادہ سے مختلف معانی کے افعال کا استخراج اورحکم وامثال کی وجہ سے دیگرزبانوں سے ممتازومنفردہے۔’’عربی زبان دنیاکی ان وسیع،شیریں،سلیس،پاکیزہ (مقدس)اورخوبصورت زبان ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔اس کے الفاظ کے مخارج نہایت سامع نواز،اس کا پیرایہ بیان بلیغ،تراکیب دل آویزاور صوتی اثرات وقیع اورموثر ہوتے ہیں۔‘‘(عربی ادب کی تاریخ۔ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی۔75/1)
عربی زبان کی ابتدا ،مدارجِ ارتقااور اس کے کمال و پختگی کے بارے میں مشہور فرانسیسی اسکالرارنسٹ رینان لکھتاہے:’’یہ زبان ابتدا میں نہایت غیر معروف تھی، مگر دفعتاًانتہائی کامل صورت میں ظاہر ہوئی ،وہ انتہائی سلیس اور بڑی دولت مند زبان ہے۔وہ شروع(ہی)سے اتنی مکمل تھی کہ اس زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک اس میں کوئی اہم تغیرنہیں ہوا ،نہ کبھی اس کا بچپن تھا اور نہ کبھی اس پر بڑھاپا آیا۔وہ ابتدا ہی سے نہایت مکمل اورمضبوط شکل میں ظاہر ہوئی ،ہمارے علم میں عربی کے علاوہ روئے زمین کی تمام زبانوں میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کو حصولِ کمال میں مختلف مراحل سے نہ گزرنا پڑا ہو۔اور نہ تاریخ میں اس سرعت کے ساتھ عربوں کی جیسی عظیم الشان فتوحات کی مثال ملتی ہے۔اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ عربی زبان دنیا کے بڑے حصے پرچھاگئی اور اْس کے اِس شرف و امتیاز میں کہ عربی عام و مقبول زبان تھی ،دینی وسیاسی زبان تھی اور قوموں کے اختلاف سے بلند تھی،صرف دو زبانیں اس مقابل کی تھیں ،ایک لاطینی ،دوسری یونانی، لیکن ان دونوں کو عربی زبان کے رقبے کی وسعت سے جس میں وہ پھیلی کوئی نسبت نہیں۔‘‘ (الاسلام والحضارالعربی۔ محمد کردعلی۔ترجمہ:اسلام اور عربی تمدن۔شاہ معین الدین احمدندوی۔ ص: 176 )
عربی زبان موجودہ زمانے میں دنیابھرمیں بولی جانے والی اہم زبانوںمیں سے ایک ہے۔’یونیسکو‘کے ایک سروے کے مطابق آج پوری دنیا میں بیالیس کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ افراد اسے مادری زبان کے طورپر بولتے ہیں،جبکہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان پنج وقتہ نمازوں ،قرآن مجید کی تلاوت ، اذکار، تسبیحات ،ادعیہ اور دیگر مختلف مواقع پر عربی زبان کو روزہ مرہ کی زندگی میں برتتے ہیں۔علاوہ ازیں ڈیجیٹل، مین اسٹریم میڈیا(ٹی وی و اخبارات)ملٹی میڈیا،سوشل میڈیا،ایکس(ٹیوٹر)فیس بک،وہاٹس ایپ (میٹا)انسٹاگرام و ٹیلی گرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر عربی زبان استعمال کرنے والوں کی تعداد کا کوئی شمار نہیں۔
عربی زبان کی ثقافتی وسیاسی اہمیت کے مدنظر 1973میں اقوام متحدہ نے اپنی دفتری زبانوں میںعربی زبان کو بھی شامل کیا۔19فروری 2010کو اقوام متحدہ کی تعلیمی ،سائنسی اور ثقافتی تنظیم’یونیسکو‘ نے 18دسمبر کو عربی زبان کا عالمی دن قرار دے کر اس کی اہمیت کا مزید اعتراف کیا۔عالمی یوم عربی زبان منانے کا مقصد مختلف زبانوں کے بولنے والے افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنانیز دنیا کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتو ںکے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔اسی لیے دنیاکے ہر خطے میں جہاں عربی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے،مختلف پلیٹ فارمزکے ذریعے اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتاہے اور عربی زبان مختلف ادیان و مذہب مختلف زبانوں اور مختلف تہذیب و ثقافت کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے میں اہم رول ادا کررہی ہے۔
قرآن و حدیث کے علاوہ دنیا بھر کے ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی و ثقافتی تعلقات کے مدنظر بھی عربی کی اہمیت و ضرورت کسی دوسری زبان کے مقابلے میں کم نہیں ہے۔ بیرون ہند جہاں جہاں عربی زبان پڑھی و پڑھائی جاتی ہے وہاں ملازمت کے مواقع تو ہیں ہی،ہندوستان کے بعض سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے علاوہ نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیوں اور میڈیکل ٹورزم وغیرہ بھی ایسے میدان ہیں جہاں حالیہ برسوں میں عربی زبان سیکھنے والے طلبا و طالبات کے لیے ملازمت کے نئے نئے مواقع میسر آرہے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان میں عربی زبان کی نشرواشاعت اور تعلیم وفروغ کا تعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ وہ دینی مدارس ہی ہیں جنھوں نے اس زبان کو زندہ و باقی رکھاہے اور پھر اس کے بعد مختلف سرکاری و غیر سرکاری ادارے، یونیورسٹیز ،کالجزجہاں عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس کا رواج اور سلسلہ ہے اس کے فروغ میںان کے اہم کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ،مگر اس زبان کو عام بول چال کی زبان بنانے کیلئے اتنی کوشش کافی نہیں ہے،بلکہ اہل زبان کا بھرپورتعاون درکارہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث کے درس و تدریس اور مسلمانوں کی دینی ضروریات کی بدولت عربی زبان تاقیامت صفحہ ہستی سے مٹنے والی نہیں ہے۔مگر اسے بول چال ،تجارت و معیشت،معاملات و لین دین،علوم و فنون اور ادب و ثقافت کے میدان میں دیگر عالمی زبانوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لیے نیز بیش قیمتی عربی و اسلامی مصادر و مراجع اور مآخذ سے مستفیدہونے کے لیے ضروری ہے کہ عربی زبان کو فروغ دیاجائے اوراسے زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے۔ انفرادی و اجتماعی طورپر اس کی نشرواشاعت کی جائے۔اس سلسلے میں اہل زبان کے اقدامات ضروری ہیں۔حالیہ برسو ںمیں سعودی عربیہ کی پیش قدمی کسی حدتک قابل تحسین ہے مگر اکثر ممالک او ر ادارے اس سلسلے میں سردمہری کے شکار ہیں ،جب کہ دیگر اہل زبان اپنے اپنے سفارت خانوں واداروں کے ذریعے اپنی زبانوں کے فروغ اور ان کی نشرو اشاعت کے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں ،جس سے ان زبانوں کا سیکھنا اور سکھانا آسان تر ہوتاجارہاہے۔اسی کا نتیجہ ہے چھوٹے چھوٹے ممالک میں بولی جانے والی زبانیں بھی دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہی ہیں اور اس کے سیکھنے والے دیگر تہذیب و ثقافت سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ مالی فائدہ بھی حاصل کررہے ہیں اور اس زبان کے سیکھنے والوں کے لیے ملازمت کے مواقع بھی بہ کثرت سامنے آرہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کرہ ارض کے جس خطے میں جو زبان پروان چڑھتی ہے وہاں کے سربراہان کی سرپرستی میں وہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بہت فروغ پاتی ہے۔ اس کی ترقی یاتنزلی کادارومدار اس کے سرپرستوں کی ترقی یا تنزلی پرہوتاہے۔بقول مشہوراندلسی مورخ ابن حزم:’’زبانوں پر اکثر ان کی حکومتو ںکے زوال ،ان کے ملکوں پر دوسروں کے قبضہ ،نقل مکانی اور دوسری قوموں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے زوال آتاہے اور قوموں کی زبان اور ان کے علوم و تاریخ کوان کی حکومت کی قوت اور ان کی چستی و مستعدی سے فائدہ پہنچتاہے اور جس قوم کی حکومت ختم ہوجاتی ہے،اس کے دشمن اس پر غالب آجاتے ہیں اور وہ خوف،احتیاج،ذلت و پستی اور دشمن کی غلامی میں مبتلا ہوجاتی ہے ، جس سے اس کا دل مردہ ہوجاتاہے اور کبھی زبان کے زوال کا سبب اس کی پراگندگی ہوتی ہے،یاجب قوم اپنی اصل و نسل اور اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے،اس وقت اس کے علوم مٹ جاتے ہیں۔یہ چیز مشاہدہ اور عقلی حیثیت سے بدیہی ہے۔‘‘(الاسلام والحضار العربیہ۔ محمد کردعلی۔ترجمہ: اسلام اور عربی تمدن۔شاہ معین الدین احمدندوی۔ ص: 178)
بہر کیف عربی زبان کے اس عالمی دن کو ایک سالانہ جشن سمجھ کر منا لینا کافی نہیں ہے بلکہ اسے فروغ دینے کی انفرادی واجتماعی کوشش لازمی ہے تاکہ اس کے اندر پنہاں علوم و فنون اور حکمت کے خزانوں سے دنیا آشنا ہونیز اس میں موجود خداکے پیام کوسمجھا جاسکے اور مختلف تہذیبوں و ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوسکے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(مضمون نگار شعبہ عربی ،جے این یو میں استاذ ہیں)