فراز الدین قدوائی
( ترجمان سماج وادی پارٹی)
وزیر اعظم کو سنسنی پھیلانے میں مہارت حاصل ہے،مگر وہ کام کی بات نہیں کرتے،جبکہ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک میں بہت سے مسائل ہیں، جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی وزیر اعظم اچانک ٹی وی پر نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج سے 500 اور1000 کے نوٹوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کبھی رات 8 بجے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کل سے ملک میں لاک ڈاؤن ہوگا، کبھی کالے زرعی قوانین لاتے ہیں اور پھر اس سے پلٹنا پڑتاہے اور اب ون نیشن ون الیکشن کا شگوفہ چھوڑا گیا ہے۔
یہ بھی وزیراعظم کی ایک سازش ہوسکتی ہے، جس کے ذریعہ ہمارے ووٹ کی طاقت کو کم کیا جا سکے۔ کیا کووند کمیٹی کو یہ اختیار تھا کہ وہ ایک ملک ایک الیکشن کے فوائد اور نقصانات کا مطالعہ کرتے؟ جی نہیں! کمیٹی کو صرف یہ کہا گیا تھا کہ وہ اس پر تجویز دے کہ اس کے نفاذ کیلئے قانون سازی اورانتظامی اقدام کی ضرورت ہے یانہیں،مگر اس کمیٹی پورا خاکہ پیش کردیا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس تعلق سے کووند کمیٹی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ون نیشن ون الیکشن سے ملک میں ایک بہت بڑا انتخابی انقلاب آ جائے گا۔لیکن یہ ون نیشن ون الیکشن، جمہوریت کا وہی حال کرے گا، جو نوٹ بندی نے ایم ایس ایم ای اورکالادھن ختم ہونے والے وعدے کا کیا تھا،یہ ون نیشن ون الیکشن جمہوریت کا وہی حال کرے گا، جو بے ترتیب لاک ڈاؤن نے ہماری معیشت کا کیا تھا۔ اس ون نیشن ون الیکشن میںجمہوریت کا بھی وہی انجام ہوگا، جو چنڈی گڑھ میں میئر کے ساتھ ہوا اور پھر بعد میں سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ ’’یہ جمہوریت کا قتل ہے اور یہ جمہوریت کا مذاق ہے۔
جو حکومت مہاراشٹر، جھارکھنڈ، ہریانہ اورجموںوکشمیر میںایک ساتھ انتخابات کرانے کی ہمت نہ کر سکی، وہ ون نیشن ون الیکشن کی بات کرتی ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوگا۔ 1967 تک تو ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوتے تھے، لیکن بعد میں وہ آہستہ آہستہ الگ کیوں ہو گئے؟ اور اس میں سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،آپ لوگوں کوبتادیں کہ یہ سب آئین کی وجہ سے ہوا اور کیا آپ آئینی ڈھانچہ تبدیل کردیں گے؟ ۔اگر ایسا ہوتا ہے تویہ جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوگی، کیو نکہ اس کی ملک کی 15 سیاسی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں۔
کووند کمیٹی 2ستمبر2023 کو قائم کی گئی۔ اس نے 191 دن کام کیا اور 14 مارچ 2024 کو اپنی 18,626 صفحات کی رپورٹ پیش کی۔ یہ بنیادی طور پر ایک بنا بنایا حکم نامہ ہے، جس کے نتائج اس کے حوالے کی شرائط میں لکھے گئے ہیں۔ اس میں ایک حقیقت ہے، جس سے آپ بالکل انکار نہیں کر سکتے۔ ون نیشن ون الیکشن صرف انتخابی کلینڈر میں ایک انتظامی تبدیلی نہیں ہوگی، بلکہ یہ ہمارے پارلیمانی نظام حکومت میں موجود مقننہ اور ایگزیکٹو کے جوابدہی کے بنیادی اصولوں پر حملہ کرے گا۔
کووند رپورٹ کے صفحہ 167 پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو آج کے انتخابی دور ہیں، اس میں 300 دن کا نقصان ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی ریاست کی بات کریں، تو ایک بار لوک سبھا انتخابات ہوں گے، ایک بار اسمبلی کے۔ تو یہاں کیسے 300 دن کا فارمولا فٹ بیٹھتا ہے؟ صفحہ نمبر 156 میںنفرت انگیز تقاریر میں کمی کر نے کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ جبکہ بی جے پی کے ایم پی خودپارلیمنٹ میں گالیاں دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی 173 تقریروں میں سے 110 میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلاہے۔
مذکورہ رپورٹ میںصفحہ نمبر 154/4 پر لکھا ہے کہ اس سے ووٹر کی تھکاوٹ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اب یہ جاننے کیلئے سروے کرائیں کہ کیا ایسا صحیح ہے کہ بار بار ووٹ ڈال کر ووٹر تھک جاتا ہے۔
آگے وہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ انتخابات کے دوران نافذ ضابطہ اخلاق کی وجہ سے حکومت کوئی بھی بڑا فیصلہ نہیں لے پاتی ہے، کووند صاحب کی یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ اس کی تردید صرف ایک بات سے کی جاتی ہے کہ ابھی 2 ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں۔جہاں کے الیکشن میں ابھی 2 دن باقی تھے کہ مرکزی حکومت نے 35 ہزار کروڑ کی پی ایم آشا اسکیم کا اعلان کر دیا۔ ابھی کچھ دن پہلے حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپے کی اسکیم کا اعلان کیا تھا، جبکہ ضابطہ اخلاق نافذ تھا۔
اس رپورٹ میں بچت کی بات کی گئی ہے ، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 9 ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوئے تھے، جس کا حساب لگائیں،تو فی ووٹر 100 روپئے بنتا ہے، تو ایک ساتھ الیکشن کرا کر آپ کتنا بوجھ کم کر دیں گے۔ الیکشن 10 برس بعد بھی کرائیں ،مگر جمہوری نظام میں پیسہ تو خرچ ہوگا ہی اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بجٹ کا فیصد کیا ہے۔
اگر آپ لوگ جون2024 سے دیکھیں، توکرناٹک میں ابھی 47 مہینے باقی ہیں، میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ میں ابھی 45 مہینے باقی ہیں، ہمانچل پردیش میں ابھی 43 مہینے باقی ہیں، گجرات میں 42، اتر پردیش میں 35 ماہ باقی ہیں۔ اگر الگ الگ انتخابات ہوتے ہیں، تو عوام کے تئیں سیاستدانوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، کیونکہ لیڈران کو پتا ہوتا ہے کہ آگے مزید انتخابات ہونے والے ہیں۔
ون نیشن ون الیکشن کا اگر نفاذ ہوتا ہے توکیا ہوگا؟ تو ایک دم صاف ہے کہ اس سے علاقائی جماعتوں کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ جو قومی جماعتیں ہوں گی وہ علاقائی پارٹیوں پر نمایاں برتری حاصل کریں گی اور اس منظر نامے میں قومی مسائل مقامی مسائل پر حاوی رہیں گے۔ ایک ملک، ایک الیکشن کے نظام کے تحت، ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے میں کوئی لچک نہیں ہوگی یا ریاست کو اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق انتخابات کرانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ کیا ہوگا؟ اگر کسی وجہ سے حکومت درمیان میں گر گئی، توسب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ ریاست کون اور کیسے چلائے گا؟ اگر کسی ریاست کی حکومت گر جائے اور اس ریاست کو مرکزی حکومت چلائے تو کئی مسائل پیدا ہوں گے کیو نکہ مرکز کے مسائل مختلف ہیں، ریاستی حکومت سے متعلق مسائل مختلف ہیں اور بلدیاتی اداروں کے مسائل مختلف ہیں۔اب آپ دوسری بات سمجھئے، ایسی بہت سی پالیسیاں ہیں، جو ماضی میں مرکز اور ریاستی حکومتیں لائی تھیں،جسے نافذ کر نے میں بڑی پریشانی ہوگی اور اس سے ہمارے جمہوری سیٹ اپ پر آمریت کا خطرہ منڈراتا رہے گا۔
دیکھئے اس ملک میں ون نیشن ون الیکشن ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ اگر آپ کو ایسا کرنا ہے، تو آپ کو ملک کی اسمبلیوں میں یہ یقینی دہانی کرانی ہوگی کہ وہاں کی حکومتیں 5 برس کی اپنی میعاد مکمل کریں اب اس کی شکل کیا ہو اس پر کام کر نے کی ضرورت ہے۔ایک اور بات، آر ایس ایس اور بی جے پی نے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ دین دیال اپادھیائے کی کتاب جسکا عنوان انٹیگرل ہیومنزم ہے، اس کو بی جے پی نے 1985 میں اپنی پارٹی کے نظریے کا بنیادی منتر کے طور پر اپنایا ہے۔ درحقیقت، اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹیگرل ہیومنزم بی جے پی کا بنیادی حصہ ہے اور اس ہی وہ چلتی ہے۔ اس میں صفحہ نمبر 56 پر لکھا ہے کہ ہندوستان کا آئین ہندوستان کی یکجہتی اور سالمیت کیخلاف ہے۔ اس میں بھارت ماتا کی زندہ حساس تصور نہیں ہے۔