ایم اے کنول جعفری
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 12دسمبر 2024 کو عبادت گاہوں کے خلاف نئے مقدمات درج کرنے اور ان کے سروے کے احکامات جاری کرنے پر اگلے حکم تک روک لگادی۔اسے زہر اُگلتی زبانوں پر لگام لگانے اور نفرت کی بھڑکتی آگ سرد کرنے کے علاوہ ملک کی سا لمیت اور قومی یکجہتی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ،جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل خصوصی بنچ نے واضح کیاکہ نئے مقدمات دائر ہو سکتے ہیں،لیکن عدالت ان کی سماعت یا کارروائی نہیں کرے گی۔ نئی عرضی کے رجسٹریشن پر بھی روک رہے گی۔ اَب کوئی بھی عدالت نہ تو بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور سنبھل کی جامع مسجد وغیرہ کے زیرالتوا مقدمات میں سروے کا حکم دے گی اور نہ ہی ایسا عبوری فیصلہ سنائے گی،جس سے عبادت گاہ کی نوعیت متاثر ہو۔اس حکم سے زعفرانی کنبے کے اُن افراد کو شدید جھٹکا لگا، جو ہر قدیم و تاریخی مسجد کے نیچے مندر کے باقیات تلاش کرنے میں غلطاں تھے۔ جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے جامع مسجد منگلور، جامع مسجد شمسی،گیان واپی کاشی وشوناتھ، شری کرشن جنم بھومی شاہی عیدگاہ متھرا، ٹیلے والی مسجد لکھنؤ، بھوج شالہ کمال مولیٰ مسجد دھار، قوت الاسلام مسجد قطب میناردہلی، جامع مسجد سنبھل، اجمیر شریف درگاہ اوراٹالہ مسجد جون پور کی10 مساجد و درگاہوں کے خلاف نچلی عدالتوں میں زیرالتوا سبھی 18 مقدمات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا،لیکن بنچ نے پہلے سے زیرالتوا مقدمات کی سماعت معطل کرنے سے انکار کردیا۔ مرکزی حکومت سے ایکٹ پر دائر عرضیوں کے خلاف4ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے اور جوابی حلف نامے کی کاپی کسی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنے کی ہدایت دی،تاکہ کوئی بھی شخص اسے ڈاؤن لوڈ کرسکے۔
دراصل بابری مسجد انہدام اور جانب دارانہ عدالتی فیصلے کے باوجود ملک کے امن پسند مسلمانوں کویقین تھا کہ اَب عبادت گاہ سے متعلق کوئی نیامعاملہ نہیں اُٹھے گا،لیکن اس کے برعکس ہوا۔ شدت پسندوں کو گیان واپی مسجد میں سروے کے بعد ہرمعروف و قدیم مسجد کے نیچے مندر نظر آنے لگا۔سنبھل کی جامع مسجد کے انتہائی عجلت میں دیے گئے سروے کے حکم کے بعد تشدد میں5مسلم نوجوانوں کی جان چلی گئی۔ پھر بھی اجمیر کی درگاہ،اَڈھائی دن کا جھونپڑا، متھرا کی عیدگاہ اور جون پور کی مسجدجیسے معاملات اُٹھائے گئے۔ پراگندہ ذہنیت کو جون 2020 میں آر ایس ایس کے سنگھ سر چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت کے کہے الفاظ، ’ہر دن ایک نیا ایشو نہیں اُٹھانا چاہیے۔جھگڑے کیوں بڑھائیں؟۔۔۔ ہر مسجد میں شیولنگ کیوں ڈھونڈھیں؟‘کی بھی ذرا پروا نہیں۔ پی وی نرسمہاراؤ کے دوراقتدار میں تشکیل دیا گیا ’ایکٹ آف ورشپ 1991‘وضاحت کرتا ہے کہ 15 اگست 1947کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی،اُسی حالت میں برقرار رہے گی۔سند رہے کہ بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں وشوہندوپریشد، بجرنگ دل اور شیوسینا جیسی سخت گیر تنظیموں نے رام مندر تحریک چلائی تھی۔کلیان سنگھ حکومت کے مسجدکو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانے کے وعدے کے باوجود 6دسمبر 1992 کو تقریباً 1.5لاکھ کارسیوکوں نے 1527 میں تعمیرنایاب تاریخی مسجد شہید کردی۔مرکز ی سرکارکا شہید مسجد کی جگہ ویسی ہی مسجد بنانے کا وعدہ نتیجہ خیز نہیں نکلا۔ عدالت عظمیٰ کے سابق جج اور معروف قانون داں جسٹس آر ایف نریمن نے بابری مسجد فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اِسے انصاف کا مذاق اور جمہوریت کے ساتھ ناانصافی بتایا۔
2017میں بابری مسجد معاملہ سامنے آنے پرجسٹس نریمن نے آئین کے آرٹیکل142میں دیے گئے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس کے نہ صرف دوبارہ ٹرائل کا حکم دیا،بلکہ دونوں ایف آئی آر پر الگ الگ کارروائی بھی کی۔ 16 اکتوبر 2019کو سماعت مکمل ہوئی۔9نومبر2019کو چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ سنایا۔بنچ میں دیگر جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس عبدالنظیرشامل تھے۔ گوگوئی کو17نومبر2019کوسبکدوش ہونا تھا۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ زمین کی ملکیت کا فیصلہ مذہبی عقیدے پر نہیں، قانونی بنیادوں پرہوتا ہے۔ فیصلے میں کہاگیا کہ آثار قدیمہ نے زیرزمین باقیات تو مانے،لیکن مندر توڑ کر اُس کے اُوپر مسجد تعمیر کی بات نہیں کہی۔ 1949کو بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنا، عبادت گاہ کی بے حرمتی، مسلمانوں کو مسجد سے بے دخل کرنا اور 1992میں ا سے گرانا قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اس کے باوجودعدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ نے حتمی فیصلے میں متنازع اراضی کو ہندو فریق ’رام للا‘ کے حوالے کرنے،رام مندر تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنانے اور مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو نئی مسجدکے لیے ایودھیا میں5ایکڑ زمین مہیاکرانے کاحکم دیا۔بابری مسجد پر فیصلہ دینے والے جج رنجن گوگوئی کو ایوان بالا کا رکن نامزد کیاگیا۔اسی طرح ستمبر 2022 میں رائے بریلی کی خصوصی عدالت کے جج سریندر یادو نے لال کرشن اڈوانی،کلیان سنگھ،اُوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی سمیت 32ملزمان کو ثبوت ناکافی بتاتے ہوئے بابری مسجد انہدام کی سازش کے الزامات سے بری کردیا۔ سبکدوش ہونے پر اُنہیں اترپردیش کا ’ ڈپٹی لوک آیکت‘بنایاگیا۔اسی طرح جج کے عہدے پر رہتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے مسلمانوں کے خلاف جم کرزہرافشانی کی۔حالاں کہ ایوان بالا میں ’تحریک فرد جرم ‘ کے نوٹس کے بعد سپریم کورٹ کالجیم نے اُنہیں دہلی طلب کیا ہے،لیکن عدلیہ کا وقار مجروح کرنے والے اس قسم کے واقعات سے بچاجاناچاہیے۔
سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی کی یاد میں قائم احمدی فاؤنڈیشن کے افتتاحی لیکچر میںجسٹس آر ایف نریمن نے ’پلیسز آف ورشپ (خصوصی دفعات) ایکٹ1991‘ برقرار رکھنے کو بابری فیصلے کا مثبت پہلو قرار دیا اور مذہبی مقامات پر تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی روکنے کے لیے ایکٹ کے سختی سے نفاذ کی وکالت کی۔2020میںعبادت گاہوں سے متعلق قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیاں ہندو تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ، اشونی کمار اُپادھیائے، ڈاکٹر سبرا منیم سوامی اور دیوکی نندن ٹھاکر کی جانب سے دی گئیں۔سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ نے اگست 2023میں گیان واپی مسجد کے متنازع ’سائنسی سروے‘ کی اجازت دے کر نہ صرف ایودھیا فیصلے کی خلاف ورزی کی،بلکہ اس سے سروے کی درخواستوں کے لیے عدالت کے دروازے بھی کھل گئے۔ جمعیۃ علماء ہند نے عبادت گاہ ایکٹ کے تحفظ کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی۔ گیان واپی مسجد کمیٹی نے ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر غور کرنے سے مساجد کے خلاف مقدمات بڑھ جائیں گے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اورگیان واپی مسجد انتظامیہ نے درخواستوں کے ا خراج کا مطالبہ کیا۔سی پی آئی ایم، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈی ایم کے، آر جے ڈی ممبر پارلیمنٹ منوج کمارجھا اور این سی پی(شرد) کے اسمبلی ممبر جتیندر اوہا کی جانب سے بھی عرضیاں دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2021کو پہلی مرتبہ مرکز کو نوٹس جاری کرکے عبادت گاہ ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جواب طلب کیا۔9ستمبر2022کو متعلقہ درخواستوںپر مرکز کو نوٹس دیے اور تمام معاملات ایک ساتھ جوڑ دیے۔ 31نومبر 2023کو رجسٹرار کورٹ نے بھی نوٹس جاری کیا،لیکن مرکز نے جواب نہیں دیا۔ دائر درخواستوں میں عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) ایکٹ 1991 کی دفعات2، 3 اور 4 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیاگیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی نے عدالت عظمیٰ کے حکم کو اہم فیصلہ قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اس سے فرقہ پرستی اور بد امنی پھیلانے والی طاقتوں پر روک لگے گی اور معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کا حتمی فیصلہ عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت بن کر سامنے آئے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]