انوارالحق قاسمی
(ترجمان جمعیۃ علماء روتہٹ، نیپال)
اس جہان فانی میں انسانی رشتوں میں سب سے عظیم المرتبت،رفیع الشان اور بلند تر رشتہ مادر و پدر (ماں باپ)کا ہے،کیونکہ اس رشتے کے بغیر انسان کا خارجی وجود بھی ناممکن ہے۔ ایک انسان کے لیے ماں باپ کا رشتہ اس درجہ مرتفع ہونے کی ایک بڑی وجہ، ان کے احسانات کا اٹم اور وافر ہونا ہے۔ ماں باپ کے احسانات چوں کہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ انھیں ایک جسمانی شکل اگر دی جائے ، تو ان کی خاطر پھر ایک بڑی حویلی اور بڑے سے بڑا گھر بھی ناکافی ثابت ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کونین کے مالک حقیقی نے اپنی لازوال اور سید الکتب ’قرآن کریم‘ میں بہت سے مقامات پر انسانوں کو جہاں اپنی عبادت و اطاعت کا حکم دیا ہے ،وہیں انھیں جائز امور میں اپنے ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری اور حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ان کی رضا کو اپنی رضاقرار دیاہے اور ان کی اطاعت کو جنت میں داخلے کا اور ان کی نافرمانی کو جہنم میں جانے کا ایک بڑا سبب قرار دیاہے۔ الغرض ایک انسان کے لیے اللہ اور رسول اللہؐ کی اطاعت بشمول والدین کی اطاعت کے جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے اور اللہ اور رسول اللہؐ کی نافرمانی، والدین کی نافرمانی و اطاعت کے ساتھ:یعنی دو صورت جہنم میں دخول کا سبب ہے۔ اس لیے اگر کوئی جنت کا طلب گار ہے ،تو پھر وہ اللہ کی، رسول اللہؐ کی اور اپنے والدین کی اطاعت کو اپنے لیے ضروری قرار دے گا،ورنہ جہنم کی راہ تو جانے کیلئے بس کسی ایک کی مخالفت ہی کافی ہے۔
خالق کائنات نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کے حکم ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:(الاسراء : 23، 24)
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا،اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پررحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا، پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن) باری تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بندوں کو اپنی عبادت کے حکم کیساتھ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ جہاں تیرے وجود میں میرے احسانات بے شمار ہیں ،وہیں تیرے خارجی وجود میں تیرے والدین کے احسانات بھی بہت ہیں،اس لیے میری اطاعت کے ساتھ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو لازم پکڑو! اگر تم اپنی زندگی میں ماں باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پاؤ،تو پھر ان کی خوب سے خوب قدر کرو اور ان کی عزت و عظمت کا ہرپل اور ہر لحظہ غایت درجہ خیال رکھو اور انھیں ’اف‘ تک بھی کہنے کی ہرگز غلطی مت کرو۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں ’اْف‘ کا ترجمہ ’ہوں‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے، تو ان کو جواب میں ’ہوں‘بھی مت کہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: اگر والدین کی بے ادبی میں ’اْف‘ سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا تو اللہ جلّ شانہ اسے بھی حرام فرمادیتے۔حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: اگر والدین بوڑھے ہو جا ئیں اور تمہیں ان کا پیشاب بھی دھو نا پڑجائے تو بھی’ اْف‘مت کہنا،کیونکہ وہ پچپن میں تمہارا پیشاب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔’قول کریم‘کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: ’قول العبد المذنب للسید اللفظ ) خطاکار اور زرخرید غلام‘ سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے، اسی طرح با ت کر نا، یہ قول کریم ہے۔ ماں پاب کے سامنے ایسی روش بھی اختیار نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے انھیں اپنی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق آسکے اور جو چیزیں انھیں مرغوب ہوں ،ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔ اور ان کے لیے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرتے رہناچاہیے۔ واضح رہے کہ ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری صرف جائز امور میں ہے، ناجائز میںہر گز نہیں۔ سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے:’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ماننا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ :’والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول ان کو نہ لگ جا ئے‘۔ والدین سے آگے چلنا،مجلس میں ان سے پہلے بیٹھنا اور ان کا نام لے کر پکارنا،یہ سب ان کے ادب کے بالکل خلاف ہے،اس لیے اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں متذکرہ افعال سے روکاہے۔ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ: یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’ان کے آگے مت چلنا، مجلس میں اْن سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔
‘خدائے واحد نے جہاں اپنے بندوں کو اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہیں انھیں والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم فرمایا ہے، سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ کا عالی فرمان ہے :’’ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے رزق میں اضافے کے ساتھ عمر بھی دراز ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی ہر گز یہ مت سمجھے کہ ہم ماں باپ سے مخالفت کرکے بڑے مال دار ہو جائیں گے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :’تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، تمہا ری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے گی‘اور اللہ کے اپنی رضامندی و ناراضگی کو، ماں باپ کی رضامندی و ناراضگی پر موقوف کرنے کا واضح مطلب یہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے اسی وقت راضی ہوں گے،جب خود ان کے ماں باپ ان سے راضی ہوں گے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فر ما تے ہیں کہ :رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘
ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے جنت کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور نافرمانی سے جنت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ماں بردار رہا، تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائے گی میں اللہ کی نا فرمانی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کرے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ: اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو۔
نمازوں کی پابندی سے اللہ کا شکر ادا ہوتاہے اور ان میں والدین کے لیے دعائے خیر سے والدین کا شکریہ ادا ہوتاہے۔حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :’جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ ‘ یوں تو فی نفسہ گالی دینا ہی حرام ہے،تو بھلا ماں باپ کو بلا واسطہ (یعنی خود کی زبان سے ماں باپ ہی کو گالی دینا) یا بالواسطہ (یعنی دوسرں کی ماں اور باپ گالی دینا،جس کے ریکشن میں تمہارے ماں باپ کو گالی دیا جائے )گالی دینا کتنا بڑا حرام ہوگا ،اس کا تخمینہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں(کبھی کبھار تو حقیقت میں بھی کوئی جاہل شخص اپنے ماں باپ کو گالی بک دیتا ہے، اور یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیق خود گالی نہیں دیتے مگر ان کو گالی دینے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ) اگر کوئی شخص کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تووہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 468،ط: دارالاشاعت)
یہ ایک حقیقت ہے انسان کو اپنے ماں باپ کی خدمت کے بغیر جنت نہیں مل سکتی ہے اس لیے بھی انسان کے لیے اپنے ماں باپ کی خدمت پر خاصی توجہ دینی چاہیے۔ ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ماں باپ تمہارے لیے جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔
(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 485، ط: دارالاشاعت)
ماں باپ کی خدمت و اطاعت اور حسن سلوک پر شریعت کی غایت درجہ تاکید اور شدت کے باوجود اگر کوئی شخص اپنے خارجی وجود کے محرکین کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے،تو اس سے بھی بڑا کوئی ملعون و مردود اور قابل مذمت شخص ہوسکتاہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ جس معاشرے اور سوسائٹی میں لوگوں کو خبر ہو کہ فلاں شخص اپنے والدین یا کسی ایک کا گستاخ اور نافرمان ہے،تو پھر اس سے ہر شخص ہی اپنا سماجی،معاشرتی رشتہ منقطع کرلے اور ان سے گفتگو،بات چیت اور لین دین تک بند کرلے اورحکومت بھی ایسے لوگوں کو اپنی ہر طرح کی مراعات سے محروم کردے ،تب جاکر سماج اور معاشرہ میں والدین کی قدر و منزلت دو چند ہوگی‘۔