غزہ جنگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ جانوں کے اتلاف کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی مسلم لیڈروں کی بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں اہل غزہ سے ہمدردی کا اظہارکرنا پڑتا ہے لیکن اب اہل غزہ کے ساتھ انہیں بھی راحت ملنے کا امکان ہے،کیونکہ اسرائیلی ذمہ داران کے حوالے سے خبر یہ آئی ہے کہ اگلے 10 دن میں غزہ میں فائر بندی کا معاہدہ طے پانے کا امکان ہے۔ خبر کے مطابق، حماس کے ساتھ فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ’’حانوکا‘‘ تہوار تک ہونے کا امکان ہے جس کی شروعات 25 دسمبر، 2024 کی شام سے ہوگی۔ یعنی یہ کہ غزہ میں فائر بندی ہوگی یا نہیں، اس کا پتہ ایک ہفتے میں چل جائے گا۔
جنگ سے مسئلوں کا حل تلاش کرنے والوں کو دیربدیر مایوس ہی ہونا پڑتا ہے۔ جنگ سے مستقل طور پر مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کی وجہ سے نئے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی مفاد کے حصول یا تسلط قائم کرنے یا برتری کے احساس کی تسکین کے لیے جنگ کی جاتی ہے۔ جنگ کرانے اور جاری رکھنے کے لیے ہتھیاروںکے کاروباری کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا ساتھ جنگ سے بالواسطہ طور پر چاندی کاٹنے والے لوگ یا لیڈران دیتے ہیں۔ جنگ ہونے یا اسے ختم نہ ہونے دینے کی کوششوں کی وجوہات جاننے کے لیے یہ سمجھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ جنگ کی بظاہر جو وجہ نظر آرہی ہے یا جو وجہ بتائی جا رہی ہے،کیا اصل وجہ وہی ہے۔ غزہ جنگ کے سلسلے میں بھی یہ جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے یہ جنگ اب تک ختم کیوں نہیں ہونے دی؟ اس جنگ کو جاری رکھوانے کے پیچھے ان کی اصل منشا کیا تھی؟ اس جنگ کے جاری رہنے سے بڑی تعداد میں اہل غزہ کا جانی نقصان ہوا ہے، غزہ کو ایک طرح سے بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، اسپتال، اسکول،مسجد اور شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جو غزہ جنگ کے دوران محفوظ رہی ہو۔
اسکولوں، اسپتالوں اور ایمبولینسوں پر بمباری کو بھی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لیڈروں نے صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جبکہ ان ملکوں میں بیشترلوگ غزہ جنگ کے خلاف رہے ہیں، وہ عام لوگوں کو مار ڈالنے کے حق میں نہیں رہے ہیں۔ اسرائیل میں ہی نہیں، دیگر ملکوں میں بھی یہودیوں نے جنگ ختم کرانے کے لیے مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔ حال ہی میں ایک سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل کے 72 فیصد لوگ اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی ہو اور غزہ جنگ ختم کی جائے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسرائیلیوں کی اکثریت جنگ جاری رکھنے کی حامی نہیں۔ وہ امن چاہتی ہے۔ اسے یہ احساس ہے کہ غزہ جنگ نے عالمی برادری میں اسرائیل کی کیا امیج بنا دی ہے۔ عالمی برادری کی اس بات سے پھردلچسپی پیدا ہوئی ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالا جائے اور فلسطین کے لوگوں کو ان کے جائز انسانی حقوق دیے جائیں جبکہ حماس کے حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ دیگر ملکوں میں بھی اسرائیل کے حق میں ایک لہر سی تھی، بیشتر ممالک کی حکومتوں نے اسرائیل کی براہ راست یا بالواسطہ مدد کی مگر غزہ جنگ طویل ہوتی چلی گئی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبروں نے حالات بدل دیے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں اہل غزہ کی حمایت میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ان کے مظاہروں نے ان کی حکومتوں پر اثرات مرتب کیے، ان ملکوں کی سیاست متاثر ہوئی، امریکہ میں یوکرین کے ساتھ غزہ جنگ ختم کرانے کے سلسلے میں ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف کملا ہیرس کے موقف سے زیادہ واضح تھا، اس لیے ان کی پوزیشن بہتر رہی۔ جیتنے کے بعد ٹرمپ نے یہ بات دوہرائی کہ وہ کوئی نئی جنگ نہیں شروع کریں گے، یوکرین اور غزہ جنگ ختم کرائیں گے، فی الوقت یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان کی مدت صدارت میں امریکہ واقعی کسی جنگ میں راست یا بالواسطہ طور پر نہیں الجھے گا، البتہ یہی لگتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے آثار ٹرمپ کے انتباہ کی وجہ سے ہیںمگر ٹرمپ اسرائیل لابی کے خلاف نہیں جا سکتے، اس لیے غزہ جنگ ختم ہو جائے اور غزہ میں امن قائم ہوجائے تو یہ بڑی بات ہوگی۔ ویسے غزہ میں اس حد تک امن قائم کرنے کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ وہ عرب ممالک جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اعلان کر سکیں۔ ان عرب ملکوں سے یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے عطیہ دینے میں فراخ دلی ضرور دکھائیں گے، ایسا ماضی میں بھی وہ کرتے رہے ہیں۔