اسد مرزا
گزشتہ ہفتے کے اواخر میں باغی قوتوں کے ہاتھوں بشار الاسد کی شامی حکومت کا ڈرامائی طور پر خاتمہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک، عالمی اور علاقائی طاقتوں اور اتحادوں کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ درحقیقت مغربی طاقتوں کے بشکریہ عراق میں ہونے والے واقعات کا ری پلے بھی ثابت ہو سکتا ہے۔گزشتہ 15دنوں کے دوران، عسکریت پسند گروپ ھیئۃ تحریر الشام (HTS)کی قیادت میں باغی فورسز نے پورے ملک شام میں بجلی کی سی تیز رفتار کارروائیاں کیں اور اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ آخر کار اس دھڑے نے ہفتے کے آخر میں دارالحکومت دمشق پر قبضہ کیا، جس سے صدر بشار الاسد کو پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑ کر روس بھاگنا پڑا۔بشار الاسد کی معزولی کا مغربی ممالک نے محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ مغربی طاقتیں خود ایسے فیصلے کریں گی جس سے شام مزید انتشار کی طرف بھی جا سکتا ہے۔یعنی کہ ایک مرتبہ پھر وہی کہانی دہرائی جائے گی جو کہ مغربی ممالک نے عراق میں لکھی تھی، اگر باغی طاقتوں نے ہوش مندی اور دانشمندی سے کام نہ لیا۔مغربی ممالک کی چالبازیاں اس وقت سامنے آئیں جب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا کہ ’یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔‘ لیکن بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیل نے شام میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے فوجی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ الجزیرہ چینل کے مطابق اسرائیل نے صرف 10-11دسمبر کے دو دنوں میں ہی شام میں مختلف مقامات پر 480حملے کیے ہیں، وہیں امریکہ نے اپنے سب سے طاقتور جنگی جہاز B-52 کے ذریعے مختلف مقامات پر بھاری بمباری کی ہے۔ یہ کارروائیاں ہمیں عراق میں رونما ہوچکے واقعات کی یاد دلاتی ہیں اور شام میں مستقبل کے واقعات دوبارہ عراق کی نقل بھی ہوسکتے ہیں۔امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے کہا کہ اس نے 75 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جن میں داعش کے رہنما، کارندگان اور کیمپ شامل ہیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ گروپ اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد افراتفری کی صورت حال کا فائدہ نہ اٹھائے۔اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون ساعار نے پیر کے روز کہا کہ اسرائیل نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ مقامات کو نشانہ بنایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ان ہتھیاروں کو دشمن کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔دریں اثنا اسرائیلی فوجی گولان کی پہاڑیوں کے اسرائیل کے ساتھ ملحقہ علاقے کے بفر زون میں داخل ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے اسے اسرائیل اور شام کے درمیان 1974 کے علیحدگی کے معاہدے کی ’’خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ شام میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پہلے دن سے باغیوں پر قابو پانے کے مغرب نواز منصوبے کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔
علاقائی فاتحین:تاہم، 50 سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد اسد خاندان کے زوال کے فوری طور پر عالمی اثرات مرتب ہوئے ہیں، روس اور ایران کو شامی ڈکٹیٹر کی بے دخلی سے ’’ہارنے والوں‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور اسرائیل کی ’’جیت‘‘ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ تینوں ملک حکومت کی تبدیلی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں ہوسکتے ہیں۔فی الوقت فوری طور پر جغرافیائی سیاسی ’’فاتح‘‘ اسرائیل اور ترکی ہیں، اسرائیل کا ماننا ہے کہ اسد کے زوال کی بدولت اس کا علاقائی دشمن ایران مزید کمزور ہوا ہے۔ جبکہ انقرہ ملک میں سب سے زیادہ بااثر غیر ملکی اداکار کے طور پر ابھر سکتا ہے۔اسرائیل کو ایران پر اس کے اثرات کی وجہ سے اسد کے زوال کا فائدہ اٹھانے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس نے شام کو لبنان میں اپنے پراکسی، عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے لیے سپلائی روٹ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اسرائیل نے لبنان اور غزہ کی پٹی میں ایرانی پراکسیوں کے خلاف اپنی فوجی مہم کے ایک حصے کے طور پر اس سپلائی چین کو بری طرح کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس بہت زیادہ اثر و رسوخ کے خاتمے کی وجہ سے فکر مند ہوگا۔ماسکو شام کی نئی حکومت کو اپنے ساتھ رکھنے میں گہری دلچسپی ہے کیونکہ وہ طرطوس میں ایک بحری اڈہ کے ساتھ ہیمیمیم میں ایک فضائی اڈہ چلاتا ہے جو اسے بحیرہ روم تک رسائی فراہم کرتا ہے۔اگرچہ باغی افواج نے کریملن کو فی الوقت یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ شام میں روسی فوجی اڈوں اور سفارتی اداروں کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں۔ رائٹرز نے روسی خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے، لیکن اس وعدے پر پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بغاوت کیسے شروع ہوئی؟:تاہم گزشتہ 15 دنوں کے واقعات نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ عرب بہار کی کہانی سے ایک اور صفحہ دہرایا جا رہا ہے۔ عرب بہار کی طرح، یہ بغاوت کا ایک سادہ عمل تھا۔ ایک کم عمر بچے کے ذریعے، جس کے ہاتھ میں ایک اسپرے کین تھا اور سامنے ایک دیوار، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔دراصل یہ ایک 14 سالہ بچے معاویہ سیاسنہ کی کہانی ہے جس کی گرافٹی نے شام کی خانہ جنگی کا فیوز روشن کیا۔آئیے آپ کو 2011 میں لے چلتے ہیں، جنوبی شام میں درعا کی دھول بھری سڑکوں پر۔ الیکس کرافٹ نے اخبار دی انڈیپنڈنٹ میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ معاویہ سیاسنہ اور اس کے دوست دوسرے نوعمروں کی طرح تھے – متجسس، شرارتی، اپنے اردگرد کی دنیا سے مایوس۔ان کے پاس ایک اسپرے کین کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ معاویہ نے اپنے اسکول کی دیوار پر ایک انتباہی پیغام اسپرے کیا:’اجک ال دروازہ، یا ڈاکٹر’۔ جس کامعنی ہیں ‘اب آپ کی باری ہے، ڈاکٹر’۔پیغام میں ڈاکٹر صدر بشار الاسد کو متنبہ کیا گیا تھا، گرافٹی صرف ایک شیطانی نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک چنگاری تھی جس نے شام کو کئی دہائیوں سے اپنے قبضے میں رکھا ہوا تھا۔ آگے جو ہوا وہ سفاکانہ تھا۔ معاویہ اور اس کے دوستوں کو شام کی خفیہ پولیس، بدنام زمانہ مخبرات نے گرفتار کیا تھا۔ 26 دن تک انہیں قید میں رکھا گیا، اذیتیں دی گئیں اور ذلیل و خوار کیا گیا۔جب ان کے والدین اور پڑوسیوں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا، تو حکومت نے تشدد کے ساتھ جواب دیا۔ آنسو گیس، گولیاں اور خون بہایا۔ لیکن لوگوں کو خاموش کرنے کے بجائے، حکومت کے اقدامات نے چنگاری کوآگ میں تبدیل کردیا۔ 15 مارچ 2011 کو شام میں پہلی بار ’’یوم غضب‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ عرب بہار سے متاثر ہو کر جس نے تیونس اور مصر میں آمروں کا تختہ الٹ دیا تھا، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے شامی شہری آزادی، انصاف اور اسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
شام کا مستقبل:جیسن برک نے برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی (ایم ای ای) میں اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں زیادہ تر شام کے نئے ڈی فیکٹو حکمران نے اپنا اصلی نام بالکل استعمال نہیں کیا یعنی کہ احمد الشارع، جو دمشق کے ایک خوشحال محلے میں ایک ترقی پسند گھرانے میں پلے بڑھے اور طب کی تعلیم حاصل کی،وہ مکمل طور پر غائب ہو گئے۔ ان کی جگہ ابو محمد الجولانی نے لے لی۔ جو جہادی عسکریت پسندوں کے خیالات کے مطابق تشکیل دیے گئے تھے ۔چنانچہ یہ جولانی ہی تھے جنہوں نے 2003 اور 2006 کے درمیان عراق میں جہادی باغیوں کے ساتھ مل کر امریکی فوجیوں کا مقابلہ کیا اور پھر وہ پانچ سال تک حراستی کیمپوں میں قید رہے۔ یہ جولانی ہی تھے جو 2011 میں اسلامک اسٹیٹ (IS) اور پھر القاعدہ دونوں کی مہموں میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے شام واپس آئے۔یہ جولانی ہی تھے جنہوں نے اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام (HTS) کو تشکیل دیا اور 2017 سے شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں 20 لاکھ افراد پر اپنی حکمرانی مسلط کی۔ پچھلے مہینے، یہ جولانی ہی تھے جنہوں نے اپنی 12 روزہ مہم جو اتوار 8دسمبر کو دمشق میں ختم ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کون سا آدمی شام پر حکمرانی کرے گا: جولانی، جسے امریکہ، برطانیہ اور دیگر نے دہشت گرد قرار دیا ہے اور اس کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالر ہے، یا شارع، جو حالیہ برسوں میں عالمی جہاد کے بجائے علاقائی جہاد پر زیادہ زور دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ شام کی تاریخ نئے جمہوری اقدار کے ذریعے لکھیں گے۔ فی الوقت اس سوال کے جواب پر بہت کم اتفاق رائے ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شارع کا دمشق میں داخل ہونے کے بعد اپنی عرفیت چھوڑنے کا فیصلہ بہت سے لوگوں کے درمیان صرف ایک اشارہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جہادی انتہا پسندی کے بجائے اب وہ اعتدال پسندی کی طرف منتقل ہوچکے ہیں۔حلب وہ پہلا شہر تھا جس پر باغی اتحاد نے گزشتہ ماہ حملہ کیا تھا،اس کے بعد HTS نے حکومت کے سابق فوجیوں کو معافی کی پیشکش کی، گھر گھر جا کر عیسائی باشندوں کو یقین دلایا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، اور کردوں کو پیغام بھیجا کہ’’تنوع ایک ایسی طاقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔‘‘ یعنی یہ کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلناچاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شارع نے خود اسماعیلی شیعہ رہنماؤں سے بات چیت کے لیے سفارتی کوششوں کی قیادت کی اور باغیوں کے لیے کلیدی شہروں کو بغیر کسی نقصان کے محفوظ بنایا۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر مغربی ممالک HTSکے نام زد عبوری وزیر اعظم محمد البشیر کو شارع کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع دیں تو شاید شام کی صورت حال یکسر تبدیل ہوسکتی ہے۔ لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔ کیونکہ مغربی ممالک پہلے آپ پر حملہ کرتے ہیں اس کے بعد آپ کو ہتھیار فروخت کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد آخر میں آپ کے ملک کو تباہ کرکے اس کی تعمیر نو کے ذریعے اپنی کمپنیوں کو کام دے کر دونوں ہی صورتوں میں مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے شارع کے لیے ایک ایسی حکمت عملی قائم کرنا ضروری ہے کہ وہ شام کی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ان مغربی طاقتوں کو بھرپور جواب دے سکیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)