ریاض فردوسی
اللہ اس قوم پر رحم کرے جس قوم کا نوجوان اور سنجیدہ طبقہ لہو لعب میں گم ہو اور انہیں کل کی فکر ہی نہ ہو۔یہ مضمون دلت وائس، 31 مئی، 1999، میں شائع ہوا تھا جس میں معروف صحافی وی ٹی راج شیکھر نے لکھا تھا: ’’اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آناہے اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میںجو کچھ کاٹاجارہاہوگاوہ وہی ہوگاجو اسپین میں ہوچکاھے‘‘
مسلمانوں نے اسپین پر ہزار سال تک حکومت کی۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمانوں کا وجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلام کے اثرات ہیں۔ اسپین کی زبان میں دیگر یوروپی زبانوں کی بنسبت عربی کے زیادہ الفاظ موجود ہیں، اس کی موسیقی پر عرب موسیقی کا اثرہے، اسکی ثقافت پر یوروپین تہذیب کے بجائے عرب ثقافت کی چھاپ ہے اور یہاں تک کہ عرب ناموں کی طرح یہاں ناموں کے شروع میں ’’ال‘‘ لگا ہوتاہے۔ 1942 سے، جب غرناطہ میں مسلم سیاست کا آخری قلعہ مسمار ہوا تھا، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی شروعات ہو گئی تھی اور 120 سال بعد 1612 میں یہ زوال یہاں سے با عمل مسلمانوں کے آخری قافلے کی روانگی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس سال کے بعد اسپین کے افق سے اسلام بالکل غائب ہو گیا۔
ایک قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام کی تنزلی کے اُس دور میں پوری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ترکی کی عثمانی خلافت قسطنطنیہ پر 1553 میں قبضہ کر چکی تھی اورجزیرہ نما بلقان کاتمام علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ مصرمیں طاقت ور مملوک حاکم تھے۔ عباسیوں کے زیر حکمرانی ایران اپنے عروج پر تھا اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اسپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ان عظیم افواج نے کچھ نہ کیا۔ اسپین میں اسلام کا خاتمہ کیسے ہوا؟ اس صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو فسطائیوں نے اس موضوع میں گہری دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا تھا تاکہ ہندوستان میں اس کی نقل کی جاسکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسپین کی کہانی دوہرائے جانے کو روکنے کیلئے مسلمانوں نے اپنے طور پر اس کا مطالعہ کیا تھا کیونکہ سب سے بڑی اقلیت ہونے کی وجہ سے(1981 کی مردم شماری کے مطابق ان کاتناسب 11.35 ہے) وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئے ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اسپین کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تیار کی جانے والی سازشوں سے لا علم ہیںاور بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ علماء کا طبقہ اس بات کو جمعہ یا عیدین کے خطبے میں بیان نہیں کرتا۔ہماری بڑی آبادی اس فتنے سے لاپرواہ ہے،تعجب ہے؟ ہندوستان کی طرح اسپین کے مسلمانوں کی بھی تین اقسام ہیں: (1)اصل عربوں کی اولادیں (2) عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی اولادیں (3) جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ سقوط غرناطہ کے بعد اپنی جانیں (دولت نہیں کیونکہ دولت لے جانے کی اجازت نہیں تھی) بچانے کیلئے اصل عرب تیونس اور مراکش چلے گئے۔ بہت سے عیسائی حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ عرب جنہوں نے اسپین میں رہنے کو ترجیح دی انہیں بالآخر ’’غیر ملکی‘‘اور اسپین کو برباد کرنے والا قرار دے دیا گیا(جیسا کہ ہندوستان میں کیا جارہاہے)۔ دیگر مسلمان یعنی مسلمان باپوں اور عیسائی ماؤں کی اولادیں یا عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں نے مکمل مذہبی آزادی دئے جانے کے شاہ فرنیڈانڈ کے اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسپین میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندوستان میں بھی تو ہمیں یہ ہی بتایا جاتاہے کہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق حاصل ہیں)۔ شروع کے سالوں میں ان کی زندگی اور املاک پر حملوں کو عارضی رویہ قرار دے کر معاف کردیا جاتا تھا۔اس کا موازنہ 1947میں تقسیم کے حالات سے کیجئے۔ (یہ مضمون 1999 میں لکھا گیا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملوں، قاتلوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا موازنہ گجرات، مظفر نگراور مالیگاؤں میں مسلمانوں کے قاتلوں کی یکے بعد دیگرے رہائی اور حکومت وقت کے ذریعے انہیں نوازے جانے سے کیجئے )۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملے محض اسی وقت شروع نہیں ہوئے بلکہ 50 سال بعد تک اس سے کم شدت کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ بالکل جس طرح آج ہندوستان میں ہو رہاہے۔ تقسیم کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے مزاحمت دکھائی اور حملہ آوروں کو جواب دیا۔ سڑکوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں، مگر آہستہ آہستہ یہ یکطرفہ حملوں میں بدل گئیں اور شکست مسلمانوں کی ہوئی اور اب تو ہندو پولیس کو مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔
اسپین میں جس وقت منظم عیسائی گروپ قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے تھے، فرنیڈانڈ کی حکومت مسلمانوں کا نوکریوں سے صفایا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل پیرا تھی:
انتظامیہ سے عربی زبان کو خارج کردیا گیا۔ جو اسکول مساجد سے منسلک تھے ان پر پابندی لگادی گئی کہ غیر مذہبی مضامین، مثلاً سائنس، تاریخ، ریاضی، اور فلسفہ نہ پڑھائیں۔ وہ صرف مذہبی تعلیم دے سکتے تھے۔تاریخ کی تعلیم جھوٹے واقعات کی بنیاد پر دی جانے لگی جس میں مسلمان دور حکومت ظلم اور صفاکی کا دور بتایا گیا۔ اسپین کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کویکسر نظر انداز کردیا گیا۔ہتھیار جمع کرنے اور خفیہ میٹنگوں کے انعقاد کے الزام کے بہانے مسلمانوں کے گھروں کی آئے دن تلاشی ہوتی تھی۔اصلی عربوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا تھا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور یہ کہ انھوں نے اسپین کو تباہ کیاہے۔ جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو یہ کہہ کر دوبارہ عیسائی بننے کی ترغیب دی گئی کہ ان کے اجداد کو زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا اور اب کیونکہ کوئی دباؤ موجود نہیں رہا، لہٰذا انہیں عیسائیت اختیار کر لینی چاہئے۔ جن مسلمانوں کے اجداد عیسائی اور مسلمان تھے انہیں حرامی قراردیا جاتا، ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر عیسائیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ اسلامی طریقے سے ہونے والی شادیوں کا عدالت میں جا کر رجسٹریشن کروانا لازمی کردیا گیا اوراسلامی قوانین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اسپین میں اختیار کیا گیا ہر طریقہ اس وقت ہندوستان میں نہایت ہوشیاری اورمنظم طریقے کے ساتھ آزمایا جارہاہے۔