گھر میں داخل ہونے کے آداب قرآن کی روشنی میں : مولانا اسلام الدین حنفی

0

مولانا اسلام الدین حنفی بنارس

مذہب اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں ہر چیز کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں خواہ وہ کسی بھی چیز سے متعلق ہو۔ قرآن جس طرح زندگی کی ہر گوشے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اسی طرح معاشرے کو فتنے اور انتشار سے بچانے کے لیے کچھ اصول بھی بتاتا ہے۔

آج اس مضمون میں ہم سماجیات سے متعلق ایک اہم موضوع ’’گھر میں داخل ہونے کے آداب قرآن کی روشنی میں‘‘ کے متعلق کچھ گفتگو کریں گے۔ گھر میں کب داخل ہوں، کیسے داخل ہوں اور اگر وہاں کسی کو نہ پائے تو کیا کریں۔ چنانچہ دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے متعلق رب تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو (سورہ نور، آیت نمبر28)۔ یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت ؐ میں عرض کیا: یا رسول اللہ گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں کوئی دیکھے، چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اورمیری اسی حالت میں میرے گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا کروں؟ ا س پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

دوسروں کے گھر جانے سے متعلق چند شرعی احکام:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ غیر کے گھرمیں کوئی بے اجازت داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سْبحَانَ اللہ کہے، یا کَھنکارے جس سے مکان والوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی آنا چاہتا ہے۔
غیر کے گھر جانے والے کی اگر صاحب مکان سے پہلے ہی ملاقات ہوجائے توپہلے سلام کرے پھر اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت لے۔

لیکن اگر وہاں کسی کو نہ پائے تو پھر اس صورت میں کیا کرے اس کے متعلق بھی قران ہماری رہنمائی فرماتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ پھر اگر ان میں سے کسی کو نہ پاؤ توبے ما لکوں کی اجازت کے بغیر ان میں نہ جاؤ اور اگر تم سے کہا جائے واپس جاؤ تو واپس ہو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے (سورہ نور ، آیت 29)

یعنی اگرمکان میں اجازت دینے والا موجود نہ ہو تو بھی ان میں داخل نہیں ہو ناجب تک تمہیں اجازت نہ دے دی جائے کیونکہ غیر کی ملکیت میں تصرف کرنے کیلئے اس کی رضا مندی ضروری ہے اور اگر مکان میں اجازت دینے والا موجود ہو اور وہ تمہیں کہے کہ ’’واپس لوٹ جاؤ ‘‘تو تم واپس لوٹ جائو اور اجازت طلب کرنے میں اصرار اور منت سماجت نہ کرو۔

دروازے پر دستک دیتے ہوئے کس بات کا خیال رکھنا ہے قرآن اس میں بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔
کسی کا دروازہ بہت زور سے کھٹ کھٹانا اور شدید آواز سے چیخنا خاص کر علماء اور بزرگوں کے دروازوں پر ایساکرنا اوران کو زور سے پکارنا مکرو ہ اور خلاف ادب ہے۔

جب کسی کا دروازہ بجائیں اور اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے تو ا س کے جواب میں یہ نہ کہیں کہ میں ہوں ، بلکہ اپنا نام بتائیں تاکہ پوچھنے والا آپ کو پہچان سکے۔حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے قرض کے سلسلے میں حضورؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تومیں نے دروازہ بجایا۔ آپ نے پوچھا: کون ہے؟میں نے عرض کی:میں ہوں۔آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں ، میں۔‘‘ (یعنی میں تو میں بھی ہوں ) گویا آپ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا۔

اور جب بالغ حضرات گھر میں داخل ہونا چاہیں تو ان کے متعلق اللہ ارشاد فرماتا ہے۔
اے ایمان والو چاہیے کہ تم سے اذن لیں تمہارے ہاتھ کے غلام اور وہ جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے تین وقت نمازِ صبح سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اْتار کرکھتے ہو دوپہر کو اور نماز کے بعد یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں ،ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں کہ وہ تم پر آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

ان تین اوقات میں ہمیں اجازت کیوں لینی چاہیے۔ فجر کی نماز سے پہلے۔ کیونکہ یہ خواب گاہوں سے اٹھنے اورشب خوابی کا لباس اتار کر بیداری کے کپڑے پہننے کا وقت ہوتاہے۔

دوپہر کے وقت، جب لوگ قیلولہ کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیتے اور تہ بند باندھ لیتے ہیں۔
نماز عشاء کے بعد،کیونکہ یہ بیداری کی حالت میں پہنا ہوا لباس اْتارنے اورسوتے وقت کا لباس پہننے کاٹائم ہے۔
یہ تین اوقات ایسے ہیں کہ اِن میں خلوت و تنہائی ہوتی ہے، بدن چھپانے کا بہت اہتمام نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصہ ْکھل جائے جس کے ظاہر ہونے سے شرم آتی ہے، لہٰذا ان اوقات میں غلام اور بچے بھی بے اجازت داخل نہ ہوں اور ان کے علاو ہ تمام لوگ تمام اوقات میں اجازت حاصل کریں ، وہ کسی وقت بھی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں۔ ان تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں غلام اور بچے بے اجازت داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ کام اور خدمت کیلئے ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں تو ان پرہر وقت اجازت طلب کرنالازم ہونے میں حرج پیدا ہوگااور شریعت میں حرج کو دور کیا گیا ہے۔

اور جب تم میں لڑکے جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اذن مانگیں جیسے ان کے اگلوں نے اذن مانگا اللہ یونہی بیان فرماتا ہے ،تم سے اپنی آیتیں ظاہر کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کی بے شمار حکمتیں ہیں،ان میں سے ایک یہاں ذکرکی جاتی ہے۔چنانچہ حضرت عطا بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول ؐ سے دریافت کیا : کیا میں اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اس سے بھی اجازت لوں۔ حضورِ اکرم ؐ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کیا:میں تو اس کے ساتھ اسی مکان میں رہتا ہی ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا: اجازت لے کر اس کے پاس جاؤ، انہوں نے عرض کیا: میں اس کی خدمت کرتا ہوں (یعنی بار بار آنا جانا ہوتا ہے، پھر اجازت کی کیا ضرورت ہے؟) رسولؐ نے فرمایا: ’’اجازت لے کر جاؤ، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اسے برہنہ دیکھو؟‘‘عرض کیا: نہیں، فرمایا: تو اجازت حاصل کرو۔ اسی حکم سے کچھ اور احکام کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے جیسے باپ یا بھائی اگر بیٹیوں یا بہنوں کو جگانے کیلئے کمرے میں جائیں تو کمرے کے باہر سے آواز دیںاور جگائیں کیونکہ بلااجازت اندر جانا نامناسب ہے کیونکہ حالت نیند میں بعض اوقات بدن سے کپڑے ہٹ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS