محمد حنیف خان
نظام عدل کی اساس صرف آئین پر نہیں ہوتی ہے،اگر ایسا ہوتا توکوئی بھی شخص انصاف سے محروم نہ رہتا بلکہ آئین سے کہیںزیادہ ان افراد پر نظام عدل منحصر ہوتا ہے جو منصفی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ہندوستان میں عدل کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے جس کی حقیقی تعبیر یہ ہے کہ یہ دیوی انصاف کو یقینی بنانے میں ذات و برادری،مذہب و ملت اورلسانی و علاقائی تعصب سے پاک ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی ہندوستان میں حصول انصاف کے باب میں عوام عدلیہ پر انصاف کی دیوی کی طرح ہی آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہیں۔ لیکن گزران وقت کے ساتھ ساتھ اب انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کی تعبیر کئی طرح سے کی جانے لگی ہے۔اس تعبیر کی حقیقت اگر دیکھنا ہو تو سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں پر عدلیہ کے فیصلوں پر کیے جانے والے تبصروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔جہاں لوگ اپنے خیالات کا بے باکی سے اظہار کرتے ہیں۔بعض لوگ تو اسے منصفین کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی سے بھی تعبیر کرتے ہیں جس کا سبب نظام عدل کی سب سے مضبوط کڑی کی حیثیت رکھنے والے منصفین کے فیصلے ہیں۔
ہندوستان میں عدلیہ پر انتہائی درجے کا یقین رکھنے کے باوجودشہریوں کا خیال ہے کہ انصاف ہر شخص کو نہیں ملتا ہے بلکہ فیصلے ان لوگوں کے حق میں ہوتے ہیں جو دولت و شہرت کے مالک ہوتے ہیں۔حصول انصاف میں تاخیر کے بعد دولت انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لیکن اب یہ بھی دیکھا جانے لگا ہے کہ مذہب بھی حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے،جس کی بہت سی نوعیتیں ہیں۔ ہندوستان میں اقلیت سے تعلق رکھنا اب جرم بنتا جا رہا ہے۔ میڈیا ٹرائل سے لے کر محکمہ پولیس تک میں جو ناروا سلوک ہوتا ہے، وہ قابل غور ہے۔عدالتوں میں پولیس کے بیانات اور اس کے ذریعہ درج کی گئی ایف آئی آر کی بنیادوں پر سماعت ہوتی ہے۔ محکمہ پولیس سب سے پہلی کڑی ہے جہاں سے انصاف یا ظلم کا آغاز ہوتا ہے اور یہ محکمہ اب اقلیتوں کے لیے مصیبت بنتا جا رہا ہے کیونکہ یہیں سے ایسی ایسی دفعات لگا دی جاتی ہیں جن میںاقلیتوںکو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ایک طویل عرصہ گزر جاتا ہے۔کتنے ایسے مسلم ہیں جن کی زندگیاں صرف محکمہ پولیس کی وجہ سے تباہ ہوگئیں،ابھی حال ہی میں اترپردیش کے ایک چوڑی فروش کو مدھیہ پردیش کی ایک عدالت سے کئی برسوں کے بعد راحت ملی اور پولیس یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس نے کسی نابالغ لڑکی کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی تھی۔یہ معاملہ ہندو علاقے میں چوڑی فروش سے متعلق تھا جہاں اکثریتی طبقے کے لوگوں نے اس پر حملہ کردیا تھا اور صرف مسلم ہونے کی بنیاد پر اسے زدوکوب کیا تھا مگر پولیس نے اسی کے اوپر پاکسوایکٹ (POCSO Act)کے تحت ایف آئی آر درج کرکے اسے جیل بھیج دیا تھا۔اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ہیں۔
نظام عدل کی آخری اور سب سے مضبوط کڑی جج ہوتے ہیں جن سے غلطیوں کا بھی خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود ہندوستان میں ججوں کے فیصلوں پر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ان فیصلوں کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔لیکن بات صرف چیلنج کیے جانے کے حق سے نہیں بنتی ہے،کیونکہ ایسی صورت میں جج بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ دراصل ’’وویک‘‘یعنی بصیرت ایک ایسا لفظ ہے جو ججوں کو آزادی دیتا ہے۔اس کی وجہ سے بہت سے معاملات میں حقیقی طور پر انصاف بھی مل جاتا ہے لیکن اس کا غلط فائدہ اٹھا کر جلب منفعت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔اس لیے اس سلسلے میں غورو فکر کی سخت ضرورت ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں جس طرح کے فیصلے اقلیتی طبقے کے حوالے سے سامنے آئے ہیں، وہ اسی بصیرت کی وجہ سے آئے ہیں جن کے بارے میں اگر یہ کہاجا ئے کہ وہ سیاسی تناظر میں فیصلے تھے یا مذہب کی بنیاد پر ایسے فیصلے دیے گئے تو مبالغہ نہیں ہوگا بلکہ قرین قیاس بات یہی ہوگی۔مثلاً بابری مسجد کا فیصلہ اس کی سب سے بڑی نظیر ہے،جس پر سپریم کورٹ کے ججوں تک نے تبصرے کیے۔جو فیصلہ لکھا گیا اس میں بھی شواہداقلیتوں کے حق میں تھے لیکن فیصلہ اکثریت کے حق میں کیا گیا۔گزشتہ ماہ بنگلورو کی ایک عدالت نے مسجد میں ’’جے شری رام ‘‘ کے نعرے لگانے والوں کو صرف اس لیے ضمانت دے دی اور معاملے کو ختم کردیا کہ مسجد میں اس نعرے سے آپسی اتحاد کو خطرہ کیسے لاحق ہوسکتا ہے۔لیکن اگر یہی معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو کیا ایسا ہی فیصلہ سامنے آتا، اس پر سوالیہ نشان لگاہے۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے باضابطہ ایک قانون ہونے کے باوجود صرف اپنی ’’بصیرت‘‘ کی بنیاد پر اسے عملی طور پر کالعدم کردیاکیونکہ عبادت گاہ ایکٹ 1991کسی بھی ایسی عبادت گاہ جو 1947سے قبل موجود تھی، اسے متنازع نہیں مانتا لیکن انہوں نے اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ ایکٹ کسی بھی عبادت گاہ کا سروے کرنے سے نہیں روکتا جس کے بعد ایک طوفان سا آگیا۔اب معاملہ گیان واپی سے بڑھ کر سنبھل کی جامع مسجد،متھرا کی عید گاہ،اجمیر کی درگاہ اور دہلی کی جامع مسجد تک پہنچ گیا ہے۔اکثریتی طبقے کے متعصب افراد اس پر نہ صرف بغلیں بجا رہے ہیں بلکہ کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔
یہ سب باتیں اس لیے کی گئی ہیں تاکہ منصفین کے طریقہ کار کو سمجھا جاسکے۔الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج شیکھر کمار یادو نے ہائی کورٹ کی لائبریری میں ہی جو باتیں اقلیتوں کے حوالے سے کہی ہیں وہ حد درجہ تشویشناک ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے ایسی باتوں کی امید نہیں تھی کیونکہ اس سے قبل بھی وہ اس طرح کی باتیں کرچکے تھے لیکن جو باتیں انہوں نے ’’یونیفارم سول کوڈ ‘‘ سے متعلق ہوئے وی ایچ پی کے پروگرام میں کہی ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔ایک منصف سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ عدالت کی لائبریری میں کسی غیر سرکاری تنظیم کو پروگرام کی اجازت کیسے دی گئی جبکہ یہ وہ تنظیم ہے جو کھلے طور پر مذہبی بنیادوں پر کام کر تی رہی ہے، اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ متعصب تنظیموں اور افراد کا عدلیہ میں کس قدر اثر و نفوذ ہوگیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کوئی جج دوران ملازمت اس طرح کی تنظیموں کے پروگراموں میں کیسے شرکت کرسکتا ہے؟قانونی طور پر اگرچہ ممنوع نہ ہو مگر اخلاقی سطح پر کسی جج سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اس طرح کی متعصب جماعت کے پروگرام میں شرکت کرے۔
جس طرح سے انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ملک اکثریت کے حساب سے چلے گا یا تعدد ازواج اور حلالہ کے مسئلے کو جس طرح انہوں نے اٹھایا، وہ در اصل آئین ہند کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین ہی سب کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے پرسنل لا پر عمل کریں۔ہندو مذہب کی توہین کے حوالے سے جو بات انہوں نے کہی، اس میں بھی کوئی دم نہیں ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ یہاں کے مسلمان اس کی توہین کرتے ہیں۔اس ملک میں ہر شخص اپنے مذہب پر عمل میں آزاد ہے، ایسے اگر ایک جج اس طرح کی بات کرتا ہے تو اس سے انصاف کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ متعصب تنظیموں نے جو ’’پودشالے ‘‘ لگائے تھے یا جس طرح سے ذہنی تربیت کا خاکہ بنایا تھا، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔یہ پہلا اور آخری نتیجہ بھی نہیں ہے۔لیکن یہ ذہنیت اور اس طرح سے ہوئی ذہنی تربیت اس ملک اور یہاں کے نظام عدل کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔
سپریم کورٹ نے مذکورہ جج کے بیانات کے حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے جو خوش آئند ہے،عدلیہ کو اپنی ساکھ کو برقرار اور عوام کا اعتماد اس پر بحال رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ نظام عدل کی سب سے مضبوط کڑی متعصب نہیں ہوگی،مذہب،زبان اورعلاقے کے ساتھ کسی بنیاد پر عدل کا گلا نہیں گھونٹا جائے گا۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ایسی ذہنیت کے افراد نظام عدل سے باہر ہوں۔