عبوری حکومت کی کارکردگی پر شام میں قیام امن کا انحصار

0

خانہ جنگی سے متاثرہ ملک میں آسانی سے امن قائم نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ بات شام کے لوگ بھی جانتے ہوں گے اور شام کی عبوری حکومت کے ارکان بھی۔ شام کی عبوری حکومت یہ بات نظرانداز کرکے حکومت نہیں کر سکتی کہ جن علاقائی اور عالمی طاقتوں نے مفاد کے حصول کے لیے شام کو پراکسی وار کا میدان بنا دیا، اقتدار کی تبدیلی کے بعد وہ ساکت نہیں ہو جائیں گی بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ وہ زیادہ متحرک ہو جائیں گی۔ عبوری حکومت کو یہ دیکھنے کے ساتھ کہ کس نے مدد کی، کون مدد کرے گا، دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کس کے کیا مفاد شام سے وابستہ تھے ، کس کا کیا متوقع رول شام میں قیام امن یا بدامنی پھیلانے میں ہوگا۔ سب سے پہلے عبوری حکومت کو شام کے لوگوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ ان کی حکومت ہے، ان کے لیے ہے، وہ ان کی اور ملک شام کی حفاظت کی اہل ہے، دشمنوں سے ٹکرانے کی اس میں صلاحیت بھی ہے، طاقت بھی اور جرأت بھی۔ شام کی عبوری حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ’ہر کسی کے لیے شخصی آزادی کی ضمانت ہوگی۔‘ اس کا یہ اعلان مثبت ہے۔ عبوری حکومت نے کہا ہے کہ ’خواتین پر مذہبی لباس کی کوئی پابندی نافذ نہیں کی جائے گی۔‘ اس بات سے وہ خواتین ضرور خوش ہوں گی جو لباس کی آزادی کے تئیں حساس ہیں۔ باغیوں کے سربراہ گروپ حیات تحریر الشام یعنی ایچ ٹی ایس کے لیڈر ابو محمد الجولانی نے بشارالاسد کے سابق وزیراعظم اور نائب صدر سے ملاقات کی ہے۔ اقتدار کی منتقلی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ الجولانی خطے کے حالات سے بے خبر نہیں ہیں۔ یہ بات بھی ان کی طرف سے واضح کر دی گئی ہے کہ تشدد میں ملوث اہلکاروں کو بخش دینے کے لیے وہ تیار نہیں۔ ابو محمد الجولانی کے مطابق، ’عبوری انتظامیہ ایک فہرست کا اعلان کرے گی جس میں شامی عوام کو اذیت دینے میں ملوث سب سے اعلیٰ عہدیداروں کے نام شامل ہوں گے۔‘ان کے مطابق، ’ہم ہر اس شخص کو انعامات کی پیشکش کریں گے جو جنگی جرائم میں ملوث اعلیٰ فوجی اور سیکورٹی افسران کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔‘ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ ’عبوری حکومت جرائم میں ملوث اور ملک سے فرار ہونے والوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کرے گی۔‘

دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ابو محمد الجولانی ملزم اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف کس طرح کی قانونی کارروائی کرتے ہیں، سزا کا عمل کیسا اور کتنا شفاف ہوتا ہے، سزا کیسے دی جاتی ہے۔ اگر عام لوگوں کو بھی یہ لگا کہ سب کچھ انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے تو پھر بیرونی طاقتوں کی تمام کوششوں کے باوجود شام میں قیام امن کے خواب کو پورا کرنا آسان ہو جائے گا مگر لوگوں کو اگر ایسا لگا کہ کسی خاص فرقے،کسی خاص طبقے، کسی خاص علاقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو پھر قیام امن کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔ ماسکو نے شام کے حالات پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کر کے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ خاموش تماشائی نہیں۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا کی یہ بات ہلکے میں نہیں لے جا سکتی کہ ’حالیہ واقعات نے سب کو حیران کر دیا ہے، اس لیے ہمیں یہ دیکھنے کے لیے کہ حالات کس کروٹ لیتے ہیں، انتظار کرنا پڑے گا۔‘

عبوری حکومت کے لیے شام میں قیام امن چھینی اور ہتھوڑے سے پہاڑ میں راستہ بنانے جیسا ہے۔ بشار مخالف گروپوں کے اتحاد، ان کی بصیرت، جرأت، شام سے محبت، لوگوں کے خیال رکھنے کے جذبے اور فلسطینیوں سے وابستگی کا امتحان تو اب شروع ہو رہا ہے، اس امتحان میں پاس کرنے کی جدوجہد انہیں خود کرنی پڑے گی، ان کی مدد خطے کے یا دیگر ممالک اسی طرح کریں گے جیسے اب تک اہل غزہ کی کرتے رہے ہیں۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS