شام کو صبح امن کا انتظار: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع

شام میں جو کچھ دیکھنے کو ملا، وہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ بشار الاسد 17 جولائی، 2000 سے 8 دسمبر، 2024 تک شام کے صدر رہے۔ اس سے قبل ان کے والد حافظ الاسد کے ہاتھ میں 14 مارچ، 1971 سے 10 جون، 2000 تک شام کی کمان رہی۔ 53 سال سے زیادہ عرصے تک ایک ہی خاندان کی شام میں حکومت رہنا کچھ عجیب سی بات تھی اور اس میں بھی ایک خاص طبقے کی حکمرانی جو کہ شام میں اقلیت میں ہے۔ بشار الاسد گزشتہ 24 سال سے یعنی اپنی تاج پوشی کے زمانے سے ہی ایک آزمائش سے دوچار تھے۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ کس طرح شامی عوام کو اپنا ہم نوا بنائیں۔ ان کا سارا استحکام شامی فوج اور شامی فوج میں بھی علوی فرقے کے فوجیوں کی حمایت پر ٹکا ہوا تھا۔ انہوں نے بہت جبر کے ساتھ بقیہ شامی عوام کو ایک طرح سے دباکے رکھ چھوڑا تھا۔ وہ شام جو کہ ابن عربی اور امام ابن تیمیہ کی آماجگاہ رہا تھا، پہلے حافظ الاسد اور اس کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسدکی سخت گیری سے دوچار تھا۔ یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ اس کے نتائج اور عواقب سے اسد رجیم واقف نہ ہو۔ حافظ الاسدبشارالاسد نے عراق میں صدام حسین کی طرح اپنے عوام کے لیے خیرسگالی، معاشی فراغت اور ترقی کے بہتر امکانات کا کوئی پروگرام وضع نہیں کیا تھا۔ صدام کا اسد خاندان کے ساتھ تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ دونوں ایک ہی مکتب فکر یعنی بعث پارٹی کے پیروکار تھے جبکہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ عراق کی ایران سے جنگ سے پہلے صدام حسین نے مفاد عامہ کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، ترقیاتی منصوبوں کو پروان چڑھایا، وہ حافظ الاسد اور بشار الاسد کے ساتھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ ان حالات کے مدنظر یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ بشارالاسد کو شام چھوڑنے پر مجبور کیوں ہونا پڑا۔

شام کے لوگ اسد خاندان سے برسوں سے بیزار تھے۔ وہ اس سے کسی طرح چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس جدوجہد میں انہیں کافی قربانی دینی پڑی۔ دیر سے ہی سہی انہیں کامیابی مل گئی۔ حافظ الاسد کو نہ سہی، بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے اور شام چھوڑنے پر انہیں مجبور کرنے میں وہ کامیاب ہو گئے۔ دراصل 2000 میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے ہی بشارالاسد چیلنجز سے نبردآزما تھے۔ کسی طرح وہ حکومت کر رہے تھے۔ دسمبر 2010 میں تیونس میں ایک بے روزگار گریجویٹ نوجوان محمد البو عزیزی نے خودسوزی کی کوشش کی تھی اور اس سے دلبرداشتہ لوگوں نے مظاہرہ شروع کیا تھا تو تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ عوامی احتجاج کی اس لہر نے مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کے دبے کچلے لوگوں کے جذبات کو ہوا دی۔ ان ملکوں میں شام بھی تھا۔ مارچ 2011 سے شام کے لوگوں نے بشارالاسد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسد نے بھی عوامی احتجاج کو طاقت کے زور پر دبانے کی وہی غلطی کی جو غلطی لیبیامیں کرنل معمر قذافی، مصر میں حسنی مبارک،یمن میں علی عبداللہ صالح نے کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام میں مسلح جدوجہد شروع ہو گئی۔ خطے اور دنیا کے بڑے ممالک دو گروپوں میں بٹ گئے۔ ایک گروپ نے بشارالاسد اور ان کے حامیوں کی مدد کی، دوسرے نے ان کے مخالفین کی۔ اس سے عام لوگوں کا بہت خون بہا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ 70 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے۔ ان میں سے 30 لاکھ لوگوں نے ترکیہ میں پناہ لی۔ اس سے ترکیہ پر اقتصادی دباؤ پڑنا فطری تھا اور پڑا۔ اس کا اظہار ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے بار بار کیا مگر شام کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ شامی مہاجرین نے واپسی کی امید تقریباً چھوڑ سی دی تھی مگر اب وہ مہاجر کی زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے شام واپس ہو رہے ہیں۔

بشار الاسد شام چھوڑ کر روس چلے گئے ہیں۔ حافظ الاسد کے زمانے سے ہی شام کے روس سے مستحکم تعلقات رہے ہیں۔ ایران سے بھی شام کے تعلقات بہتر رہے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ ایران سے بغیر کوئی مدد مانگے بشارالاسد نے روس کی طرف کوچ کیا اور وہاں پناہ لی۔ اب ایران، ترکیہ اور سعودی عرب کو مل کر ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس سے اسرائیل گولان پہاڑیوں کو نشانہ نہ بنا سکے، اس کا اثرورسوخ کم ہو۔ اس میں عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل کو اہم اور کلیدی رول ادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ جو باغی افواج ہیں، دوسرے شامی عوام ہیں، وہ صبر و تحمل سے کام لیں۔ پچھلی رجیم سے جڑے لوگوں اور دوسری تنصیبات سے منفی رویہ نہ اپنائیں۔ توڑپھوڑ اور انتقامی کارروائی سے گریز کریں۔ ایک نئے شام کی تعمیر کریں۔ وہ شکایتیں جو انہیں علوی رجیم سے رہی ہیں، ان کا اعادہ نہ کریں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کی جنرل کمان نے شام میں ہر کسی کے لیے شخصی آزادی کی ضمانت دینے کی بات کہی ہے، اس نے یہ بات کہی ہے کہ ’خواتین پر مذہبی لباس کی کوئی پابندی نافذ نہیں کی جائے گی۔‘ لیکن اس نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ تشدد میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ شام میں قیام امن کا بہت حد تک انحصار اس پر ہوگا کہ یہ کارروائی کس طرح کی ہوگی، کیونکہ انتقامی کارروائی کا سلسلہ اگر ایک بار شروع ہو گیا تو پھر شام میں امن قائم نہیں ہو پائے گا، وہاں خانہ جنگی کے نئے باب کا آغاز ہو جائے گا اور اس صورتحال سے شامیوں کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امید یہی رکھنی چاہیے کہ عبوری حکومت شام کو صدام حسین کے بعد کے دور کا عراق یا کرنل معمر قذافی کے بعد کے دور کا لیبیا نہیں بننے دے گی۔ وہ امن پسند شامیوں کو مایوسیوں سے بچانے کے اقدامات کرے گی اور نئے سرے سے شام کو ایک پرامن، مستحکم، خوشحال اور مثالی ملک بنانے کی جدوجہد جاری رکھے گی، کیونکہ شام کو اب صبح امن کا انتظار ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)
[email protected]
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleادرک -قرآن اور حدیث کے حوالے سے: ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
Next articleعبوری حکومت کی کارکردگی پر شام میں قیام امن کا انحصار
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh