سید واصف اقبال گیلانی
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ حالت نہ صرف ایک سیاسی مسئلہ ہے بلکہ اس کے گہرے سماجی اور قانونی پہلو بھی ہیں، جو ملک کے بقا پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کے ذریعے ثقافت، علم اور تعمیرات میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد آئین نے اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی، لیکن عملی میدان میں مسلمانوں کو مسلسل مشکلات کا سامنا رہا ہے۔بابری مسجد کیس کا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کیسے عدالتی نظام اقلیتوں کے لیے غیر منصفانہ ہو سکتا ہے۔ جسٹس آر ایف ناریمن جیسے سابق جج نے اس فیصلے کو “انصاف کا مذاق” قرار دیا اور اس پر تنقید کی کہ مسلمانوں کے حق میں شواہد ہونے کے باوجود زمین ہندو فریق کو دی گئی۔ اس کے علاوہ، مسجد کی جگہ دوسری جگہ زمین دینے کو بھی ایک غیر متوازن حل قرار دیا گیا، جو مسلمانوں کے جذبات اور ان کے آئینی حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے۔یہ معاملہ صرف ایک عدالتی فیصلے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں مذہبی تنازعات نے جنم لیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیاں، جن میں اقلیتوں کو خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔ لنچنگ، طلبہ پر تشدد، مسلم خواتین کو ہراساں کرنااور مساجد کی بے حرمتی جیسے واقعات نہ صرف مسلمانوں کی حالت زار کو واضح کرتے ہیں بلکہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ سیاست کی سنگینی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔جج شیکھر یادو کا ایک اجلاس میں دیا گیا بیان عدلیہ کی غیرجانبداری پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ان کے متنازعہ ریمارکس، جن میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی، واضح کرتے ہیں کہ عدالتی نظام میں تعصب کتنا گہرا ہے۔ جج کے اس بیان نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور سیکولرزم کے اصولوں کو متاثر کیا ہے، جو کہ ہندوستانی آئین کا بنیادی حصہ ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے، ایسے بیانات نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں بلکہ فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ رویہ عدلیہ میں موجود ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو اقلیتوں کے اعتماد کو کمزور کرتے ہیں اور انصاف کے نظام کو مشکوک بناتے ہیں۔سنبھل مسجد کے واقعے نے نہ صرف پولیس فورس کی بے رحمی کو بے نقاب کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح مسلمانوں کے خلاف تعصب ہر ادارے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس واقعے میں پولیس نے مسجد میں داخل ہو کر نہ صرف عبادت گاہ کی بے حرمتی کی بلکہ مسلمانوں کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب نظام کا حصہ بن چکا ہے۔
یہ رویہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود نہیں بلکہ عدلیہ، تعلیمی اداروں، میڈیا، اور دیگر اہم شعبوں میں بھی مسلم مخالف تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ پولیس کے اس قسم کے اقدامات نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ مذہبی آزادی پر براہِ راست حملہ ہیں۔مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کرنا اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد انہیں خوفزدہ کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کو دبانا ہے۔ سنبھل مسجد کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں کو اب اپنے حقوق اور وقار کے تحفظ کیلئے متحد ہو کر مضبوط حکمت عملی اپنانا ہوگی، ورنہ یہ ظلم اور جبر کا سلسلہ جاری رہے گا۔اتر پردیش میں ایک تاریخی مسجد کو انہی حالات میں مسمار کیا گیا جب کیس ابھی نچلی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ یہ کارروائی ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے کے تحت کی گئی، جس کا مقصد مسجد کو مکمل طور پر مسمار کرنا تھا۔ یہ عمل نہ صرف عدلیہ کی موجودہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، بلکہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے۔مسجد کو مسمار کرنے کا یہ واقعہ ایک اور گہرے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے، جہاں حکومتی منصوبے اور عدلیہ کے فیصلوں کا اثر مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پڑ رہا ہے۔ جب کیس ابھی عدالت میں چل رہا تھا اور مسجد کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی تھا، تو اس طرح کا غیر قانونی عمل اور جابرانہ قدم ایک تشویش ناک علامت ہے کہ کس طرح مذہبی اقلیتوں کو جان بوجھ کر ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس واقعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مسلمان صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ عدالتوں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس طرح کے اقدام سے باز آنا ہوگا اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ایسے میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی، سماجی، اور سیاسی سطح پر اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منظم ہوں، تاکہ ان کے وجود اور ان کی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔مسلمانوں کی ہندوستانی تاریخ ایک عظیم تہذیبی اور سیاسی ورثے کی حامل ہے، جس نے صدیوں تک برصغیر کو نہ صرف حکومت بلکہ علم و فن کی روشنی سے بھی منور کیا۔ مغل سلطنت کے عروج کے دوران ہندوستان دنیا کا ایک عظیم علمی و ثقافتی مرکز بن گیا تھا، جہاں معاشی خوشحالی، تعمیراتی شاہکار، اور علمی ترقی نے ایک سنہری دور کی بنیاد رکھی۔ تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ، اور فتح پور سیکری جیسی یادگاریں نہ صرف فن تعمیر کا شاہکار ہیں بلکہ ان کے ذریعے تہذیب و تمدن کے اعلیٰ معیار کا اظہار ہوتا ہے۔علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے نہایت قابل قدر کام کیا، جس میں فارسی اور اردو زبانوں کو فروغ ملا اور ہندوستانی ثقافت کو گہرائی ملی۔ مسلمانوں نے نہ صرف علمی ادارے قائم کیے بلکہ زراعت، تجارت، اور صنعت و حرفت میں بھی اہم خدمات انجام دیں، جس سے برصغیر عالمی معیشت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔آزادی کے بعد، اگرچہ مسلمانوں کو آئین کے تحت مساوی حقوق دیے گئے، لیکن عملی طور پر ان کی حالت زار مختلف رہی۔ سیاسی اقتدار سے محرومی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی، اور سماجی تفریق نے مسلمانوں کو ایک کمزور طبقے میںتبدیل کردیا۔سیاسی جماعتوں نے انہیں صرف ووٹ بینک کی حد تک محدود رکھا اور ان کی ترقی کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی تنظیموں کی فرقہ وارانہ سیاست نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ پروان چڑھایا۔ لنچنگ، مساجد کی بے حرمتی اور تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک نے مسلمانوں کے سماجی حالات کو مزید خراب کر دیا۔ ان کے خلاف یہ اقدامات نہ صرف انفرادی نقصان کا باعث بنے بلکہ ہندوستان کی جمہوری شناخت اور سیکولر اصولوں کو بھی نقصان پہنچایا۔مسلمانوں کی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ان کی شناخت، حقوق، اور مساوات کے لیے مؤثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ تاریخی شعور مسلمانوں کو موجودہ حالات میں مضبوط بننے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم فراہم کر سکتا ہے۔
بابری مسجد کیس ہندوستان کی عدلیہ، سیاست، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو چیلنج کیا۔ 2019 میں سنایا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ، جس میں زمین ہندو فریق کو دی گئی، نہ صرف مسلمانوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوا بلکہ ہندوستان کے عدالتی نظام پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔فیصلے میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی اور مجرمانہ عمل تھا۔ اس کے باوجود زمین کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں کیا گیا، حالانکہ مسلمانوں کے پاس مضبوط شواہد موجود تھے۔ سابق جج جسٹس آر ایف ناریمن نے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے “انصاف کا مذاق” قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ہندوستان کے سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق، متبادل زمین کی پیشکش ایک ناکافی اور غیر منصفانہ حل تھا، جو مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا۔بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہندوستانی آئین کے بنیادی سیکولر اصولوں کے منافی نظر آتا ہے۔ آئین کی دفعہ 14 تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور انصاف کی ضمانت دیتی ہے، جبکہ دفعہ 25 مذہبی آزادی کو یقینی بناتی ہے۔ اس کیس میں مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا، جو ایک اقلیتی طبقے کے لیے خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔’’مقامات عبادت ایکٹ 1991‘‘ کے تحت مذہبی مقامات کی 1947 کی حالت کو برقرار رکھنے کا عہد کیا گیا تھا، تاکہ اس قسم کے تنازعات کو روکا جا سکے۔ تاہم، اس ایکٹ کا بابری مسجد کیس میں مؤثر نفاذ نہ ہونا ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس ایکٹ کو مضبوطی سے نافذ کیا جاتا تو شاید اس نوعیت کے تنازعات پیدا نہ ہوتے۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہندوستان کی سماجی ساخت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس فیصلے نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور ہندو مسلم تنازعات کو مزید تقویت دی۔ فیصلے کے بعد کئی دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جس نے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھایا۔ یہ رجحان نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستان کی مجموعی سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس فیصلے نے عدلیہ کے غیر جانبدار ہونے پر عوامی اعتماد کو کمزور کیا۔ جب عدالتوں سے انصاف کی توقع کی جاتی ہے، ایسے فیصلے اقلیتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا عدالتی نظام ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکا ہے۔بابری مسجد کیس اور اس سے جڑے تنازعات نے بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے ایجنڈے کو تقویت دی۔ یہ تنظیمیں ہندو تو کے نظریے کو فروغ دیتی ہیں اور اقلیتوں، خاص طورپرمسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں۔بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے سیاسی بیانیے کا ایک اہم حصہ رہی ہے، جس نے انتخابات میں ان کے ووٹ بینک کو مضبوط کیا۔یہ سیاسی حکمت عملی نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کو بھی کمزور کرتی ہے۔ یہ اقلیتوں کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتی ہے اور سماجی عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔بابری مسجد کیس اور اس سے جڑے مسائل ہندوستان کے لیے ایک اہم سبق ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ، اور عدلیہ کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔’’مقامات عبادت ایکٹ 1991‘‘ کا سخت نفاذ ضروری ہے تاکہ اس قسم کے تنازعات دوبارہ نہ پیدا ہوں۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں میں آئینی اصولوں اور اقلیتوں کے حقوق کو مقدم رکھنا ہوگا۔مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تعلیم، معیشت، اور سماجی شعور کے میدان میں ترقی کریں تاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے آواز اٹھا سکیں۔ ان کی تاریخ اور ثقافت ان کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے، جس کی روشنی میں وہ اپنے موجودہ مسائل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔بابری مسجد کیس کا فیصلہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جس نے ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور سماجی ہم آہنگی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کیس سے سبق سیکھتے ہوئے تمام فریقین کو ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر کی طرف قدم بڑھانا ہوگا جہاں تمام مذاہب کے پیروکار مساوی حقوق اور احترام کے ساتھ رہ سکیں۔