بنیامین نیتن یاہو حاضر ہو: ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

0

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

کافی لیت و لعل، بحث و تمحیص اور عواقب پر غوروفکر کے بعد الزامات ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں۔ 21نومبر2024کوعالمی عدالت تعزیرات (International Criminal Court) جس کو ICCبھی کہا جاتا ہے نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یووگالانٹ کو جنگی جرائم (War Crimes) اور بالارادہ اور جان بوجھ کر غزہ کی شہری آبادی کو زندگی کی بنیادی اور لازمی ضرورتوں مثلاً کھانا، پانی، دوا، ایندھن، بجلی وغیرہ سے 8اکتوبر2023 سے 20 مئی 2024 تک محروم رکھنے کے جرم میں جنگی جرائم کا مرتکب پایا اور اس جرم میں ان دونوں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔

عالمی کرمنل کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں فرداً فرداً ان جنگی جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ عوامی سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے جان بوجھ کر شہری آبادی پر حملہ کا حکم دیا۔ شہریوں پر مظالم ڈھائے گئے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسرائیل کی غاصب افواج کے ذریعے خوں ریزی اور زنا بالجبر جیسے جرائم کا ارتکاب کرایا گیا۔

اسرائیل نے فوری طور پر اس کو غیر سامی لابی کا پروپیگنڈہ قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں اور اس نے اپنی بے گناہی کا اظہار کیا ہے۔ نیتن یاہو کی آفس نے نہایت بھونڈے پن کے ساتھ اپنا موازنہ الفریڈ ڈریفس (Alfred Dreyfus) جو السیشین یہودی(Alsatian-Jewish)توپ خانہ (Artillery) کا آفسر تھا جس کو 1894 میں فرانس میںجاسوسی کا ملزم ٹھہرایا گیا تھا سے کیا ہے۔

اس کے جواب میں امریکہ نے حسب سابق اسرائیل سے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جو بائیڈن نے عالمی عدالت کے وارنٹ کو نہایت اشتعال انگیز اور ہتک آمیز (Outrageous) قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل دونوں ہم پلہ نہیں ہیں۔ یہ بات اپنے آپ میں درست ہے۔

حماس فلسطین کی قوم پرست (Nationalist) تنظیم ہے جو غزہ پٹی پر 2007 سے حکومت کررہی ہے۔ اس کا عسکری بازو (Militant Wing) ہے مگر اس کے پاس کوئی فوج (Army) نہیں ہے جس کی کمان اس کے ہاتھ میں ہو اور جس کو وہ لڑائی کا حکم دے۔ جبکہ اسرائیل باضابطہ ایک ریاست ہے جس کے پاس باضابطہ منتخب فوجی قوت ہے جو لڑائی بھی کرسکتی ہے اور ایک قابض فوج کی طرح کام بھی کرسکتی ہے۔

بغیر کسی اشتعال کے اگر حماس کوئی تشدد کرتا ہے تو اس کی حیثیت بغاوت (Insurgency) کی ہوگی جس کے مرتکبین کی مناسب طریقہ سے سرکوبی کی جائے گی۔ لیکن تادیبی کارروائی کا مطلب عوام کے خلا ف مکمل اور بلا امتیازجنگ چھیڑنا نہیں ہے جس سے ان کی آزادی کے ساتھ جینے کے حق کی نفی ہوتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ حماس نے 7اکتوبر2023کو 1189 انسانوں کو مارا اور 251 لوگوں کو یرغمال بنالیا۔ یہ بے سوچے سمجھے ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی جو دہائیوں کے جبر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔اسرائیل نے مجرموں کو نشانہ بنانے کے بجائے غزہ کے خلاف خوں ریزی شروع کردی اور ظلم کا دہانہ کھول دیا اور پورے علاقے کی ناکہ بندی کردی۔اپنی دفاع کا بہانہ بناکر اسرائیلی جنگجوؤں نے دسیوں ہزار شہریوں کو ہلاک کردیا (جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ شامل تھے) اور لاکھوں کو بے گھر کردیا۔ پوری شہری انفرا اسٹرکچر کو تباہ کردیااور زندہ بچے لوگوں کو ایسی ناگفتہ بہ حالت میں جھونک دیا جس نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اور وہ بھوکوں مرنے پر مجبور ہیں۔

تمام ظالموں کا خاتمہ کردہ(In Exterminate All the Brutes) غزہ 2009 میں نوم چومسکی نے صحیح ہی کہا تھا کہ ’’ایک ریاست کو مجرمانہ حملوں سے دفاع کا حق ہے۔‘‘ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی دفاع طاقت (By Force) سے کرے۔ اسی اصول نے جرمنی کو اس کی اجازت دی تھی کہ پیرس میں جرمن سفارتخانہ کے افسران کے قتل کا جواز بناکر کرسٹال ناٹ (Kristallnacht) پر حملہ کرے یا انگلینڈ نے بلفاسٹ میں آئرش ریپبلک آرمی(IRA) کے حملہ کے جواز میں آئرلینڈ پر حملہ کردیا۔جرمنی کے مظالم کی خوب خوب مذمت ہوئی اور انگلینڈ کو عالمی برادری کے سنسر کا ڈر تھا۔ اس جنگ میں پوری قوت سے حصہ لینے کے باوجود کسی حد تک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔

اس کے برخلاف نیتن یاہو اور گالانٹ نے اپنے پہلے کے تمام سیاسی درندوں کو مات دے دیا۔ یوگوسلاویہ کے سابق صدر سلوبوڈان مائی سیوک (Solobodan Milsovec) اور اس کے حامی ساتھیوں کو 1999 میں 7.4 لاکھ کوسوو البانیوں کو بے گھر کرنے اور 340 لوگوں کا ناحق خون بہانے کا مجرم پایا گیا اور آج کوئی اس کی یاد میں دیاجلانے والا نہیں ہے۔

امریکی ویٹو کے ذریعے تحفظ کے نتیجے میں عالمی مذمت اور پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر ان دونوں نے اپنا ارادہ ظاہر کردیا تھا کہ ان کا مقصد غزہ کا مکمل محاصرہ ہے جہاں وہ انسان نما جانوروں سے لڑرہے ہیں جن کے لیے بھیانک موت مقدر ہے۔ پچھلی آٹھ دہائیوں سے پھانسی اور تا عمر قید ان کا مقدر بن چکی ہے۔
موجودہ عالمی منظر نامہ میںای سی سی روم کے قوانین کے مطابق نیتن یاہو 124 ملکوں میں جہا ںجائے گا اس کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، لیکن دنیا کے چند طاقت ور ملکوں نے عالمی عدالت کے اختیارات کو منظور کرتے ہوئے اس کی توثیق نہیں کی ہے جن میں امریکہ، روس، چین اور بھارت شامل ہیں۔ فرانس نے بھی کہہ دیا ہے کہ نیتن یاہو کو اس کی سرزمین پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اسرائیل عالمی عدالت کے چارٹر پر دستخط کنندگان میں شامل نہیں ہے۔

لیکن اس کا اطلاق دوسرے ملکوں پر نہیں ہوتا ہے۔ وہ ممالک نیتن یاہو کو اپنے ملک میں آنے پر پابندی لگاسکتے ہیں۔ اس کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ چلاکر یہ ممالک اس کو عالمی برادری سے خارج کرسکتے ہیں۔ عالمی دباؤ کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے نیتن یاہو نے جنگ بندی کے لیے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ جبکہ فرانس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 52 بار حزب اللہ سے معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا اس سے اس کے جرم کی شدت میں کمی نہیںہوتی ہے۔ امید کی جاتی ہے جب عقل و تہذیب پاگل پن پر غالب آئے گی تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے لواحقین کو انسانیت کے خلاف جرم کی پاداش میں اس کو سزا دے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS