مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے اور ان کے مذہبی مقامات پر مسلسل ہونے والی زیادتیاں ہمارے سماجی اور قانونی نظام کیلئے ایک سنگین سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بلکہ پورے ملک کے جمہوری اور سیکولر کردار کیلئے بھی ایک خطرناک چیلنج ہے۔ ملک کی فلاحی بنیادیں،جو مذہبی آزادی،مساوات اور انصاف پر قائم ہیں، ان پر حملے ہو رہے ہیںاور یہ معاشرتی تناؤ کو مزید بڑھا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مساجد کے سروے پر عارضی پابندی کا حکم ایک وقتی راحت ضرور ہے،لیکن اس کے پیچھے چھپی وجوہات اور زمینی حقائق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اس معاملے کی گہرائی میں جا کر اس پر غور کریں۔ دراصل،یہ حکم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ملک میں چل رہی فرقہ وارانہ کشیدگی اور مذہبی مقامات پر حملوں کی حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
عبادت گاہوں(خصوصی دفعات) ایکٹ 1991،جو کہ مذہبی مقامات کے موجودہ کردار کو برقرار رکھنے کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے،آج خود خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس قانون کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستیں اور مختلف عدالتوں کے ذریعے مساجد کے نیچے نام نہاد مندروں کی تلاش کیلئے جاری کردہ سروے کے احکامات نے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ سنبھل جیسے مقامات پر ان ہی سروے کی وجہ سے ہونے والے تشدد کے نتیجے میں مسلم نوجوانوں کی ہلاکت،ان مظالم کی ایک واضح مثال ہے،جو نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی بلکہ ان کی جان و مال کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آج 12 دسمبر 2024 کو عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ملک بھر کی تمام عدالتوں کو مساجد کے سروے سے متعلق کسی بھی نئے مقدمے یا درخواست کو قبول کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ زیر التوا مقدمات (جیسے گیان واپی مسجد،متھرا شاہی عیدگاہ،سنبھل جامع مسجد وغیرہ) میں عدالتوں کو سروے کے احکامات سمیت کوئی موثر عبوری یا حتمی حکم جاری نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ ہم یہ ہدایت دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے،لیکن اس عدالت کے اگلے احکامات تک کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر کارروائی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ اس حقیقت کے پیش نظر اہم ہے کہ عبادت گاہوں(خصوصی دفعات) ایکٹ کا مقصد 15 اگست 1947 کو موجود مذہبی مقامات کی حالت کو برقرار رکھنا ہے اور اس کا چیلنج کرنا ملک کی مذہبی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
مساجد کے نیچے مندروں کی دریافت کے نام پر کی جانے والی کارروائیاں نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہیں بلکہ ان کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی ہیں۔ یہ طرز عمل مسلمانوں کو نہ صرف ان کی مذہبی آزادی سے محروم کرتا ہے بلکہ ان کے وقار اور وجود کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ 15 اگست 1947 کو مذہبی مقامات کی حالت کو برقرار رکھنے کے قانونی اصول کو چیلنج کرنا،ایک ایسے معاشرے کی علامت ہے جو زخموں کو مندمل کرنے کے بجائے انہیں سرطان میں بدلنے کا متمنی ہو۔
یہ بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ بڑھتے ہوئے حملے صرف ان کے مذہبی مقامات تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے تعلیمی،سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید خطرناک ہو جاتی ہے جب ریاستی ادارے،جو کہ انصاف اور امن کے ضامن ہونے چاہئیں،خود ان مظالم کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مساجد کے سروے پر پابندی ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن جب تک عدالتیں اور حکومت اس نوعیت کی کارروائیوں کے پیچھے چھپے سیاسی اور سماجی مقاصد کو تسلیم نہیں کریں گی،یہ مسئلہ جڑ سے ختم نہیں ہوگا۔
مسلمانوں کے خلاف اس امتیازی سلوک کے نتائج صرف اقلیتوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال سماجی ہم آہنگی کو ختم کرتی ہے، جمہوریت کو کمزور کرتی ہے اور قانون کی حکمرانی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے۔ جب انصاف اور قانون کے نظام کو متاثر کرنے والی کارروائیاں بڑھنے لگتی ہیں تو یہ نہ صرف اقلیتی گروپوں بلکہ پوری قوم کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام انصاف پسند شہری اور ادارے اس مسئلے کے خلاف متحد ہوں اور ان عناصر کو روکیں جو ملک کے سیکولر اور جمہوری تانے بانے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئین کی دی ہوئی آزادیوں کی حفاظت کی جائے،تاکہ ہم ایک ایسے معاشرتی ماحول کی تخلیق کر سکیں جہاں ہر شہری کو برابری اور احترام کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔