نئی دہلی:قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسرطاہرمحمود نے تین پڑوسی ملکوں کی مخصوص مذہبی اقلیتوں کو ملک کی شہریت دیے جانے سے متعلق نئے ہندوستانی قانون کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے تحت ملکوں اور فرقوں دونوں کا انتخاب کسی خاص اصول یا منطق پر نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی مصلحتوں پر مبنی ہے ۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگرمشترک سرحدوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ہندوستان کی سرحدیں پاکستان اور بنگلا دیش کے علاوہ چین اور میانمارسے بھی ملتی ہیں ان ممالک میں اقلیتوں کے بدنام زمانہ استحصال کو کیوں نظر انداز کیا گیا، اور اگر اس قانون کو جنوبی ایشائی ممالک تک محدود رکھنا تھا تو بدھسٹ اکثریت والے بھوٹان اور سری لنکا اور ہندو اکثریت والے نیپال کو کیوں اس سے الگ رکھا گیا۔ پروفیسرمحمود نے مزید کہا کہ متنازعہ قانون کے تحت جن چھ مذہبی فرقوں کو شامل کیا گیا ہے وہ ان تینوں ہی ملکوں میں جن تک یہ قانون محدود ہے اقلیت میں ہیں اس لئے یہ قانون بنانا ہی تھاتو مخصوص مذاہب کا نام لینے کے بجائے ’مقامی اقلیتیں‘کی اصطلاح کااستعمال کرنا ایک زیادہ مہذّب طریقہ ہوتا۔ خاص مذاہب کی نشاندہی غیر ضروری تھی اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اس سے ان ممالک کی کچھ دیگر اقلیتیں نئے قانون کی حدود سے باہر رہتی ہیں جن میں یہودی اوربہائی فرقوں کے علاوہ احمدیہ جماعت بھی شامل ہے جسے پاکستان کے دستور کے تحت غیرمسلم قراردیا گیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS