محمد امین اللہ
بہترین کارکردگی سے ایک ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے اور اس کی آزادی محفوظ رہتی ہے اورملک میں امن و امان قائم رہتا ہے۔ اس ملک کے حکمران اور ریاستی اداروں کے افسران و ذمہ داران عوام کی نظروں میں قابل احترام ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ اپنے فرائض منصبی سے انصاف نہیںکرتے توعوام ان کی عزت کرنے کے بجائے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے ملکوں میں خونی انقلاب برپا ہوتا ہے، جس کی مثالیں ماضی اور حال میں بھری پڑی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہر معاشرے میں سرکاری ذمہ داری اور مناسب سے ہٹ کر کچھ شخصیات نہایت ہی قابل احترام ہوتی ہیں جو نسل نو کی تعلیم و تعمیر میں ، ملکی سطح پر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ پہلے نمبر پر اساتذہ ہیں جن کو معمار قوم و ملت کہا جاتا ہے۔ نصف صدی سے پہلے تک ان اساتذہ کو احترام کے حوالے سے اولیت حاصل تھی کیونکہ یہ نہ صرف علم و آگہی فراہم کرنے کا ذریعہ تھے بلکہ اپنے طلبا اورطالبات کیلئے رول ماڈل تھے۔ یہ طلبہ کو علمی، دینی ، تہذیبی ، اور اخلاقی تربیت سے آراستہ کرتے تھے یہ اساتذہ اس کام کوکار نبوت سمجھ کر کرتے تھے۔ اسکول کے اوقات کے بعد بلا معاوضہ یہ اپنے طالب علموں کو گھروں پر پڑھایا کرتے تھے اس کام میں والدین بھی اساتذہ کو روحانی باپ سمجھ کر انکی عزت و توقیر دید و دل فرشِ راہ کیا کرتے تھے۔ اساتذہ کو ماں باپ کی جگہ مکمل اختیار ہوتا تھا کہ وہ دوران تعلیم اور گھر سے باہر بھی شاگردوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور سرجنس کریں۔ مگر تف بھیجئے اس جدیدیت کو جس نے تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا لہٰذا اب اساتذہ بھی اس پیشے کو کاروبار سمجھ کر کرنے لگے نتیجہ تعلیم کے اس کاروبار اور بروکری میں عزت و احترام ، تکریم تعظیم کا تقاضاعبس ہے۔ اس کے بعد اساتذہ کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ بچوں کی شرارت اور بد تمیزی پرڈانٹ ڈپٹ کریں الا یہ کہ اس کو کوئی سزا دیں۔ جس انگریزی تہذیب اور جدیدیت نے تعلیم کا یہ طریقہ عام کیا ہے ان کے یہاں ایک معقولہ مشہور ہے۔
Spare the rod spoil the child.
اساتذہ واحد ذریعہ تعلیم ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں کیلئے نوجوان نسل کو فراہم کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج زندگی کا ہر شعبہ انحطاط پذیر کیوں ہے اور اس سے پیدا ہونے والے،جج ، انجینئر ، ڈاکٹر ، فلسفی گویا زندگی کے تمام ہنر مند افراداور مع اساتذہ کے، معاشرے کی خدمت کر نے والوںکی اکثریت بد عنوان کیوں ہیں۔ یہ بات آفاقی سچ کی طرح تسلیم کی جاتی ہے کہ پہلے تعلیم کامطلب یہ تھا کہ موجودہ نسل اپنے آنے والی نسل کو اپنا علمی ، دینی ، تہذیبی، اخلاقی اورثقافتی ورثہ کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ منتقل کرتی تھی ،مگر اب جو تعلیم ہے وہ خرید وفروخت کے نذر ہو گیا اوراساتذہ کا یہ بڑاطبقہ اپنی عزت اور تکریم سے محروم ہو گیا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا۔
میںمعلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اب تو ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ کالج اور یونیورسٹی میںطالبات اوراساتذہ کے معاشقے زیر بحث ہوتے ہیں۔
خوش تو ہم ہیں بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداںسے نکل جاتی ہے فرہاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیاخبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
علامہ اقبالؔ
وہی استاد قابل قدرصد احترام ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہے۔ ورنہ وہ دو کوڑی کا ہوتا ہے۔
A teacher is that who ponders over the sacred writings of God and wonders of nature and tells about them to the students. He always keeps the interests of the students in first hand. He has high moral value to idealize the students.
استادوہ ہے جو مقدس تحریرات اور قدرت کے عجائبات پر غور وفکر کرتاہے اور اس متعلق اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے۔وہ طالب علموں کے مفادات کو ہمیشہ اولیت دیتا ہے۔و اعلیٰ اخلاقی قدروں کاحامل ہوتا ہے جس کو دیکھ کر طلبہ اپنا سکیں۔معاشرے کے اہم رکن علماء ، مفتیان دین اور محدثین ہیں۔ پورے ملک میں مدارس اور دینی دار العلوم کا ایک نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں علما اور دینی علوم کے ماہرین ہر سال فارع التحصیل ہوتے ہیں یہی ممبر و محراب اور دینی اداروں میں خدمات انجام دیتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات کی جگہ یہ مسلکی اور فرقہ وارانہ واعظ اور درس کی نمائندگی کرتے ہیں نتیجتاً آج ہر مسلک کا حامل مسلمان اک دوسرے کیلئے نہ صرف کافر ہے بلکہ واجب القتل ہو گیا ہے جس سے پورا پاکستان آج متاثر ہے۔ شدت پسندانہ نظریات کے حامل مسلح گروہوں نے تو کہرام برپا کر رکھا ہے جس کا عالمی طاغوتی قوتوں کو براہ راست فوائد مل رہے ہیں اورمسلم دنیا اس آپسی جنگ و جدال میں مبتلا ہے جس کی براہ راست ذمہ داری ان دینی رہنمائی اورممبرو محراب کے علم برداروں پر عائد ہوتی ہے۔ آج نوبت یہ ہے کہ خود کش دھماکوں اور علماکی ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے نفرت کا ایسا بازار گرم ہے کہ ایک دوسرے مسلک کے علما اور دینی رہنما نہ صرف بے قدر ہو چکے ہیں بلکہ بے توقیر کیے جاتے ہیں جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کے رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ آل عمران میںدرد ہوتا ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، لیکن آج اہل غزہ کیلئے روئے زمین پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ مسلمان جسد واحد کے مانند ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہے توتکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے،مگر اب ایسا نہیں ہے کیو نکہ اسرائیل کی بربریت نے فلسطینیوں کو تہس نہس کردیا ،مگر57 مسلم ممالک میں سے کسی نے بھی کوئی مدد نہیں کی۔
جج معاشرے کے اہم ستون ہیں۔ ان کے درست فیصلوں سے ہی معاشرے میں امن و امان قائم رہ سکتا ہے اور جرائم کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔ آج یہ طبقہ حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور دوہرے معیار کے فیصلے طبقاتی بنیادوں پر دیتا ہے ۔ با لخصوص بر صغیر ہند و پاک اوربنگلادیش میں تو مقتول کے ورثا ہی مجرم ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جہاں منصفین طبقاتی فیصلے کرتے ہیں۔
آج یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قومی خزانہ لوٹنے والے صدر اور وزیراعظم بن جاتے ہیں اور ایک فقیرروٹی چوری کے الزام میں برسوں جیل میں چکی پیستا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انقلابات جنم لیتے ہیں۔
ڈاکٹرصاحبان اور حکماں جو انسان کے تمام تر صحت و تندرستی بحال رکھنے اور لوگوں کو شفایاب کرنے کے ذمہ دار ہیں آج ان کے عزت و احترام صرف اور صرف لوگ بیماری کے حالت میں ہی کرنے پر مجبور ہیں آج ایک متوسط طبقے کا آدمی بھی علاج معالجے کے اخراجات اور ڈاکٹر کی فیس برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا، شدید بیماری کی صورت میں جب وہ مجبوراً کسی نجی اسپتال میں داخل ہوتا ہے تو اخراجات کے بوجھ تلے دب کر قرض دار ہو جاتا ہے اگر مریض اچھا ہو جاتا ہے تو تیماردارمقروض ہوجاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائیں میسر نہیں ہوتیں اور سرکاری ڈاکٹر اپنے ذاتی کلینک میں مریضوں کو آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ رفاعی اسپتال ویسے تو کم ہیں مگر وہ بھی اب دھیرے دھیرے کاروباری بنتے جا رہے ہیں اور جان لیوا امراض کی دوائیں اتنی زیادہ مہنگی ہیں کہ ایک غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو چلتے پھرتے لوگ مسیحا کہنے کے بجائے قصا ب کہنے لگے ہیں۔ آدمی کے عزت و احترام اس کے اعلیٰ کردار اخلاق اور خدمات خلق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ یہ تمام طبقات معاشرے میں اپنی حیثیت بالکل کھو چکے ہیں بلکہ آج بھی عمومی طور پر ان کا احترام باقی ہے مگر اکثریت اپنے کردار و فرائض کے ساتھ نا انصافی کرنے کی وجہ سے بد نام ہے۔
بجاکہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
شیخ ابراہیم ذوقؔ