اودھیش کمار
پنجاب کے امرتسر میں شری ہرمندر صاحب میں شرومنی اکالی دل(ایس اے ڈی)کے صدر اور پنجاب کے سابق نائب وزیراعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل پر حملہ کسی بھی طرح سے چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ اسے اتفاق کہیں یا سکھبیر سنگھ بادل کی ابھی عمر باقی ہے ورنہ حملہ آور نے گولی چلا ہی دی تھی۔ سیکورٹی اہلکاروں نے جلدی سے اسے قابو کیا اور ہاتھ اوپر اٹھادیا ورنہ جتنے قریب سے اس نے گولی چلائی تھی سیدھے سکھبیر سنگھ بادل کے سینے یا سر میں لگتی۔ اس کے بعد کیا ہوتا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ گولی کے پاورفل ہونے کا ثبوت دیوار پر لگے نشان سے ملتا ہے۔ گولی داخلی دروازے کی دیوار پر لگی۔ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک ایک بڑے قتل، ناخوشگوار واقعہ اور تشدد کے خطرے سے بچ گیا۔ لیکن اس واقعہ نے ایک بار پھر ان خدشات کی تصدیق کر دی کہ پنجاب میں تشدد اور بدامنی پھیلانے کی سازشیں جاری ہیں اور ان کے لیے لوگ بھی تیار ہیں۔ سکھبیر سنگھ بادل کو دیگر اکالی لیڈروں کے ساتھ شری اکال تخت صاحب کی طرف سے 11دن کی خدمت کی مذہبی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ مرکزی دروازے پر نیزہ لیے وہیل چیئر پر بیٹھے تھے۔ ان کی سزا کا دوسرا دن تھا۔ اس وقت سکھبیر سنگھ بادل کی ٹانگ خراب ہے جس کی وجہ سے وہ کرسی پر بیٹھ کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح کا غیرمتوقع واقعہ پیش آئے اور اس پر کوئی سیاسی بیان نہیں آئے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ مخالفین پنجاب حکومت کے حفاظتی انتظامات پر سوال اٹھا رہے ہیں جب کہ بھگونت سنگھ مان حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر سیکورٹی کے جامع انتظامات نہ ہوتے تو نہ حملہ آور پکڑا جاتا اور نہ ان کی جان بچتی۔
ہم اس بحث میں نہ پڑیں کہ سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے یا نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ سابق نائب وزیراعلیٰ اور اتنا بڑا لیڈر خدمات انجام دے رہا ہو اور انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات نہ کیے ہوں۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہاں سادہ وردی میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ اس کے باوجود اگر حملہ آور 9ایم ایم گلوک ریوالور کے ساتھ اتنا قریب پہنچ گیا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس نے تقریباً 10فٹ کے فاصلے سے ہی پستول نکال کر گولی چلائی۔ خیال رہے کہ واقعہ کے چند منٹ بعد ہی ایک این آر آئی کو بھی غیر قانونی پستول کے ساتھ پکڑا گیا۔ وہاں کی پولیس کا بیان ہے کہ شری ہرمندر صاحب کے وقار کو دیکھتے ہوئے وہ ہر شخص کی تلاشی نہیں لے سکتے۔ کیا یہی سچ ہے؟
اس کا فیصلہ ہم پنجاب کے لوگوں بالخصوص سکھ کمیونٹی، گولڈن ٹیمپل کے اعلیٰ منتظمین اور شرومنی گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی پر چھوڑتے ہیں۔ ویسے یہ بدقسمتی ہے کہ کچھ لیڈروں نے یہی الزام لگایا ہے کہ سکھبیر نے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے حملہ کرایا۔ وہاں کے پولیس کمشنر گرپریت سنگھ بھلّر نے کہا ہے کہ ہم اس پہلو سے بھی جانچ کررہے ہیں۔ حملہ کے طریقہ اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی نہیں سوچ سکتا کہ اس کے پیچھے سکھبیر سنگھ بادل یا خود اکالی دل کی کوئی سازش ہو گی۔ لیکن سیاست جو نہ کرائے۔
اس کے دوسرے پہلوؤں پر بحث کریں۔ گرفتار حملہ آور کا نام نارائن سنگھ چوڑا ہے جو ببر خالصہ انٹرنیشنل کا دہشت گرد بتایا جا رہا ہے۔ وہ ڈیرہ بابا نانک کا رہنے والا ہے۔ نارائن سنگھ چوڑا پر دہشت گردی اور جرائم کے کئی الزامات ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق اس کے خلاف پاکستان سے بڑی تعداد میں اسلحہ لانے سمیت تقریباً 30 مقدمات درج ہیں۔ وہ تین بار جیل جا چکا ہے اور اس کا کل 3,139دن جیل میں رہنے کا ریکارڈ ہے۔ اسے28فروری 2013کو دو دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ کرالی میں اس کے ٹھکانے سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا تھا۔ اس نے ببر خالصہ کے بین الاقوامی دہشت گردوں جگتار سنگھ ہوارا، پرم جیت سنگھ بھیورا، جگتار سنگھ تارا اور دیوی سنگھ کو 2024میں چندی گڑھ کی بریل جیل سے فرار ہونے میں مدد کی تھی۔ خیال رہے کہ یہ سب سابق وزیراعلیٰ بے انت سنگھ کے قاتل ہیں جو جیل میں سرنگ کھود کر فرار ہوگئے تھے۔ حالاں کہ اس کیس میں وہ بری کیا جاچکا ہے۔ اس پر8مئی 2010کو پرم جیت سنگھ پنچواڑ کے ڈرائیور رہے رتن دیپ سنگھ کے ساتھ امرتسر میں سرکٹ ہاؤس کے قریب ایک کار میں آر ڈی ایکس رکھ کر دھماکہ کرنے کی سازش کا بھی الزام لگا تھا۔ اس کے علاوہ ترن تارن، گرداسپور سمیت دیگر اضلاع میں بھی اس پر غیر قانونی سرگرمیاں، روک تھام ایکٹ یعنی یواے پی اے سمیت سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ آخری بار وہ 2022 میں ضمانت پر باہر آیا۔ چار دہائیاں قبل اس کے پاکستان جاکر تربیت حاصل کرنے کی بھی بات سامنے آئی ہے۔ وہاں اس نے خالصتان نیشنل آرمی بنائی تھی۔ درحقیقت دہشت گردی کے ابتدائی مرحلے کے دوران پنجاب میں اسلحے اور دھماکہ خیز مواد کی بڑی کھیپ کی اسمگلنگ میں وہ ملوث رہا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے اس نے گوریلا جنگ اور بغاوت پر مبنی کتاب بھی لکھی۔ سکھبیر سنگھ بادل پر حملے کے بعد ریلوے کے مرکزی وزیر مملکت رنویت سنگھ بٹو کا بیان ہے کہ نارائن چوڑا نے2009میں بھی ان پر بھی حملہ کیا تھا۔ ان کے مطابق وہ گاڑی میں آر ڈی ایکس لے کر گھومتا تھا۔ رنویت سنگھ بٹو مسلسل یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں کہ ایسے دہشت گردوں کو جیل سے رہا کرنا خطرناک ہے۔ وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے اس معاملے میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم(ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے جس میں امرتسر کے پولیس کمشنر کے ساتھ 5سینئر افسران شامل ہیں۔
آپ سوچیں کہ اگر اس طرح کا خطرناک آدمی پنجاب میں کھلے عام گھوم رہا ہے تو اسے کس طور پر دیکھا جائے؟ وہ مذہب پر لیکچر دیتا ہے، کتابوں کے علاوہ مضامین اور نظمیں لکھتا ہے۔ اس میں کیا باتیں ہوتی ہوں گی، اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اگر وہ پورے بادل خاندان کو پنتھ کا غدار سمجھتا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ وہ کھلے عام بولتا رہا ہے کہ بطور نائب وزیراعلیٰ سکھبیر بادل، ان کے والد وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل پنتھ کے خلاف کام کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کی دہشت گردانہ سوچ رکھنے والوں کے لیے، ہر وہ شخص پنتھ کا غدار ہوگا جو اس کی خالصتان جدوجہد کے منصوبے کی حمایت نہ کرے۔اس نے ٹی وی چینل پر بھی بادل خاندان کو دھمکی دی تھی۔ اطلاع یہ ہے کہ مرکزی حکومت بھی اس سلسلے میں پولیس کو الرٹ کرچکی تھی۔ پولیس نے جب اس کے گاؤں چوڑا میں چھاپہ مارا تو اس کی بیوی جسمیت کور نے بیان دیا کہ وہ پہلے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا لیکن جیل میں سزا کاٹنے کے بعد سدھر گیا تھا۔
اس کی ذہنیت دیکھیںکہ جب پولیس نے اسے پکڑا تو وہ ہنس رہا تھا۔ درحقیقت چوڑا اکیلا نہیں ہے جو اس وقت پنجاب میں آزادانہ گھوم پھر کر پرتشدد ماحول تیار کررہا ہے۔ اپنی تقریروں میں ایسے لوگ کھلے عام تشدد اور سکھ برادری کے تعلق سے اشتعال انگیزباتیں کرتے ہیں۔ ہم نے پنجاب کے شہروں میں خالصتان کے حامیوں کو کھلے عام جھنڈا لے کر سڑکوں پراحتجاج کرتے دیکھا ہے۔ امرت پال سنگھ کا معاملہ سامنے ہے۔ اسے کیسے تیار کرکے بھارت بھیجا گیا یہ بھی سامنے آگیا ہے۔ وہ کھلے عام پورے پنجاب میں ہندوستان مخالف اور اشتعال انگیز بیانات دیتا تھا، جلسے کرتا تھا،جگہ جگہ اس کا استقبال ہوتا رہا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے پنجاب میں اپنا ایک بڑا گروپ بنا لیا۔ وہ نشے سے چھٹکارا دلانے کے نام پر نوجوانوں کو پکڑتا، ان کو مارتا اور اس کے ساتھ ہی انہیں سکھ برادری کے نام پر اپنے خالصتان وژن کے لیے کام کرنے کے لیے بھی تیار کرتا تھا۔ مرکزی حکومت کے سنجیدہ ہونے کے بعد اس کی گرفتاری میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ بھی سامنے ہے۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کے گاؤں کے گرودوارے میں جاکر تقریر کی اور اس کے بعد اس کی گرفتاری ہوئی۔ گزشتہ کچھ سالوں میںتوہین کے الزامات لگاکر گرودواروں تک میں تشدد اور قتل کے واقعات ہوئے۔
پولیس نے ریاست بھر سے تشدد کو ہوا دینے والے دہشت گردوں کو ہتھیاروں کے ذخیرہ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بیرون ملک نظر دوڑائیں تو علیحدگی پسند پرتشدد عناصر کی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ نئے سرے سے پنجاب میں بدامنی پھیلانے کی سازشیں جاری ہیں۔ کینیڈا حکومت نے تو وہاں مارے گئے دہشت گرد کی حمایت میں ہندوستان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ حالاں کہ ایسے لوگ مٹھی بھر سے زیادہ نہیں ہیں اس لیے یہ کامیاب ہوں گے، ایسا نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن جس ریاست نے دہشت گردی کا اتنا بڑا دور دیکھا، تقریباً 72ہزار لوگوں کی جانیں گئیں، وہاں سکھبیر سنگھ بادل پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی طرف سے کس قسم کی سختی اور چوکسی کی ضرورت ہے۔ تاہم ایک اور پہلو بھی ہے کہ ان دنوں پوری دنیا میں ہندوستان مخالف دہشت گرد مارے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی ان کے اندر بے چینی ہے۔ مجموعی طور پر بھگونت سنگھ مان حکومت کو سکھبیر سنگھ بادل پر حملے کے پیچھے کی سوچ اور پنجاب کے علاوہ سرحد پر پاکستان اور دیگر ممالک میں ہورہی خالصتانی عناصر کی سرگرمیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکز کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔