زین ہاشمی ندوی
شام کی خانہ جنگی 2011ء میں شروع ہوئی تھی اور آج تک ایک عالمی بحران کے طور پرسامنے آئی ہے۔13سا ل کے دوران پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ایک تباہ کن جنگ کا سامنا کیا۔ اس جنگ میں متعدد ممالک اور گروہ ملوث ہوئے اور اس دوران بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرنے والے روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اہم اتحادی تھے، تاہم اب یہ جنگ ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکی ہے اور اسد کی حکومت کا اقتدار کمزور ہو چکا ہے۔
باغیوں کی فتح: کیسے ممکن ہوئی؟
حالیہ برسوں میں باغی گروپوں کی جانب سے ایک زبردست حملہ ہوا، جس نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ ان گروپوں نے حلب، حماہ اور دیگر اہم شہروں میں کامیاب پیش قدمی کی اور اس کے بعد دمشق کا محاصرہ کیا۔ اس کامیابی میں باغیوں کی مشترکہ حکمت عملی اور ان کے اتحادیوں کا اہم کردار تھا۔
(1)حیات تحریر الشام کا کردار: باغیوں میں سب سے اہم گروپ ’’حیات تحریر الشام‘‘ (HTS) تھا جو ایک سنی مسلم تنظیم ہے اور ابتدا میں القاعدہ سے جڑا تھا، تاہم اس گروہ نے بعد میں اپنی پوزیشن کو زیادہ قومی نوعیت کا بنایا اور اسد کے خلاف جدو جہد کی۔ اس گروہ نے نہ صرف جنگی حکمت عملی میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس نے دوسرے گروپوں کے ساتھ بھی اتحاد قائم کیا، جس کے نتیجے میں اسد کی حکومت کے خلاف ایک مضبوط محاذ بن گیا۔
(2)ترکی کی حمایت: ترکی نے بھی باغیوں کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے نہ صرف فوجی امداد فراہم کی بلکہ شام کے کرد ملیشیا کے اثر کو کم کرنے کے لیے باغیوں کو وسائل فراہم کیے۔ ترکی کا یہ عمل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی سیاست اسد کی حکومت کے خاتمے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بہت اہم رہی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی نے شام کے مہاجرین کی واپسی کے لیے باغیوں کو پیش رفت کا ایک اہم موقع فراہم کیا ہے۔
(3)روس اور ایران کی مصروفیت: بشار الاسد کی حکومت کو روس اور ایران کی مکمل حمایت حاصل تھی جو اسد کے اتحادیوں کے طور پر اس کی فوجی مدد فراہم کرتے تھے، تاہم حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی مصروفیت نے اسد کی حکومت کو کمزور کر دیا۔ روس کا یوکرین میں مشغول ہونا اور ایران کا اسرائیل کے خلاف تنازعہ میں زیادہ مداخلت کرنا اسد کے لیے ایک سنگین چیلنج بن گیا۔ اس کے نتیجے میں اسد کی حکومت کی فوجی مدد میں کمی آئی، جس سے باغیوں کو پیش قدمی کا موقع ملا۔
بشار الاسد کا زوال:
کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
باغیوں کی حالیہ فتح نے نہ صرف اسد کی حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کی ہے بلکہ اس سے شام کی سیاست اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
(1)ملک کی تقسیم: باغیوں کی فتح کے باوجود شام اب بھی ایک تقسیم شدہ ملک ہے۔ شمال مشرقی علاقے کردوں کے کنٹرول میں ہیں اور دیگر علاقوں میں داعش کی موجودگی اب بھی ایک خطرہ ہے۔ یہ ملک کی جغرافیائی تقسیم کا ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے، جس کا حل تلاش کرنا ضروری ہوگا۔
(2)مہاجرین اور بے گھر افراد: خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کی واپسی ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ ان افراد کو دوبارہ اپنے وطن واپس لانا اور ان کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا اہم ہے۔ اس کے علاوہ شام کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہوگی تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹا جا سکے۔
(3)نیا سیاسی ڈھانچہ: بشار الاسد کے زوال کے بعد ملک کو ایک نئی حکومت کے قیام کا چیلنج درپیش ہے۔ باغی رہنما جمہوری اصلاحات کا وعدہ کر رہے ہیں، لیکن ایک متحد حکومت کا قیام ایک مشکل عمل ہوگا۔ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف سیاسی گروہ ہیں اور ان کے درمیان اختلافات کی موجودگی اس بات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی موجود ہے کہ آیا نئی حکومت میں سب کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا یا نہیں؟!
بین الاقوامی برادری کا کردار:
شام کی خانہ جنگی ایک عالمی بحران بن چکی ہے اور بین الاقوامی برادری کا اس میں اہم کردار ہے۔ اسد کی حکومت کا زوال ایک طرف خوشی کی بات ہو سکتا ہے، لیکن اس کے بعد شام میں امن و استحکام کا قیام ایک مشکل چیلنج ہو گا۔ عالمی طاقتوں کو شام کی تعمیر نو اور مفاہمت میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
(1)بین الاقوامی امداد: شام کی جنگ کے خاتمے کے بعد ملک کو فوری طور پر بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ اپنی تباہ حال معیشت اور انفرااسٹرکچر کو بحال کر سکے۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف گروپوں کے درمیان مفاہمت کے لیے بھی عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہو گا۔
(2)مفاہمت اور امن: شام کے عوام کے لیے امن کی بحالی ضروری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مختلف گروپوں کے درمیان مفاہمت کا عمل شروع ہو۔ عالمی طاقتوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس عمل میں سب کو مساوی حقوق اور نمائندگی ملے۔
نتیجہ:
شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی حکومت کا زوال ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ملک کو ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لیے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ باغیوں کی فتح ایک جیت ہے، لیکن جنگ کے دوران ہونے والی تباہیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری شام کے عوام کے لیے امن اور استحکام کے راستے تلاش کرے اور ملک کی تعمیر نو کے لیے اپنے وسائل اور مدد فراہم کرے۔ اس کے بغیر شام کے عوام کو امن اور سکون کی زندگی گزارنا مشکل ہو گا۔
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی