پروفیسر عتیق احمدفاروقی
بنگلہ دیش میں تختہ پلٹنے کا واقعہ تقریباً چارماہ پرانا ہے، پر ابھی بھی وہاں حالات تشویشناک ہیں۔ وہاں نظم ونسق کی صورتحال روزبروز کیوں بگڑتی جارہی ہے ؟ کیا سبب ہے کہ محمدیونس کی قیادت میں چل رہی نگراں حکومت کی شروعاتی یقین دہانی کے باوجود وہاں اقلیتی فرقہ غیرمحفوظ محسوس کررہاہے ؟ اس پورے منظرنامہ کو ہم کیسے دیکھیں ؟ آج کچھ اسی طرح کا ماحول ہمارے ملک میں بھی دیکھنے کو مل رہاہے۔ ہماری حکومت بنگلہ دیشی حکومت پر تنقید کررہی ہے ،بہت اچھی بات ہے ، کرنا بھی چاہیے۔ لیکن کیا اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول میں اصلاح کیلئے کوئی ہم کوئی قدم اٹھارہے ہیں ؟ ان سبھی سوالات کے جوابات ہمیں سنجیدگی سے تلاش کرنے ہوں گے۔ دراصل عوامی لیگ کی لیڈر شیخ حسینہ اپنے والد شیخ مجید کی طرح سیکولر ذہن رکھتی ہیں اوروہ معاشرہ کے سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر جمہوریت کے دائرۂ کار میں حکومت کررہی تھیں۔ مگر ریزرویشن کے مدعے پر جو تحریک وہاں چلی اسے ٹھیک سے نمٹانے کی بجائے انہوںنے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔ نتیجتاً حالات بد سے بد تر ہوگئے اوران کواپنا اقتدار چھوڑ کر ہندوستان بھاگنا پڑا۔ ان حالات کا فائدہ یقینا فرقہ پرست عناصر نے بھی اٹھایاجس سے وہاں کی اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ جس نوعیت کی حکومت بنگلہ دیش میں چل رہی ہے ، کیا ایسی حکومت کیلئے بنگلہ دیش کے آئین میں کوئی التزام ہے؟ اس حکومت پر بے ضابطگی کاالتزام ہے کیونکہ یہ عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی حکومت نہیں ہے اور دوسری بات یہ مستقبل قریب میں چناؤ کرانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہی ہے۔دراصل محمدیونس کی شخصیت غیرمتنازعہ رہی ہے اورانہیں نوبل انعام بھی مل چکاہے۔ لیکن موجودہ وقت میں بنگلہ دیش سے جوخبر آرہی ہے، وہ اچھی نہیں ہے۔اب محمدیونس کی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اقلیتوں ،آزاد خیال افراد ، ترقی پسند لوگوں اورسوشلسٹوں کو تحفظ نہیں فراہم کراپارہے ہیں۔ صرف اقلیتوں یا ہندوؤں پر ہی نہیں ، عوامی لیگ کے لیڈران اورکارکنان پر بھی حملے کی خبریں آرہی ہیں۔ محمدیونس کے85؍فیصد صلاح کار ایسے ہیں جو پہلے بی این پی اورجماعت اسلامی کے دورحکومت میں اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ خصوصاً سال2001ء سے 2006ء کے درمیان جب بی این پی اورجماعت اسلامی کی حکومت تھی تب یہ صلاح کار کسی نہ کسی عہدے پر قابض تھے۔
بنگلہ دیش میں پانچ اگست کے بعد جس حکومت کی تشکیل ہوئی ہے ، اُس کے بعد زیادہ تر جو تقرریاں ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ جماعت اسلامی کارکنان ہیں۔یہ لوگ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بن گئے ہیں اورعدلیہ ، ایڈمنسٹریشن ، فوج اورپولیس میں بھی انہیں عہدے مل گئے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، بنگلہ دیش میں ایسے شدت پسند گروپ ’مکتی واہنی ‘کے زمانے سے ہی رہے ہیں۔ ان کا نظام فکر پاکستان حامی رہاہے۔ خبر ہے کہ آج بنگلہ دیش میں ایسے ہی لوگ برسراقتدار ہیں۔ ان کا مانناہے کہ بنگ بندھو مجیب الرحمن کے بجائے محمدعلی جناح کو’فادر آف نیشن ‘کادرجہ دیاجاناچاہیے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی تعمیر تو جناح نے کی تھی ۔ عبوری حکومت سے لوگوں کو بڑی توقع تھی ، خصوصاً ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کو امید تھی کہ ایک جمہوری حکومت آئے گی ، جو روزگار پیدا کرے گی، بدعنوانی ختم کرے گی اورغیرجانبدارانہ الیکشن کرانے پر غور کرے گی۔ بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں ایسے طلبہ ہیں جو اپنے کو ٹھگاہوا محسوس کررہے ہیں۔ کچھ کا نظریہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت جو حکومت ہے اس کے پیچھے جماعت ہے اورجماعت کے پیچھے پاکستان ہے۔ محمدیونس کے پیچھے امریکی حمایت ہے ، ڈیموکریٹ لیڈر یونس کے حامی رہے ہیں۔ یونس سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن کے رابطے میں رہے ہیں۔ ان لوگوں نے مل کر جماعت کے ساتھ تال میل بٹھایاا وریونس کو آگے رکھتے ہوئے شیخ حسینہ کا تختہ پلٹ دیا۔ کیا اس تبدیلی کو بنگلہ دیشیوں نے مکمل طور پر قبول کرلیاہے۔ قابل غورہے کہ بنگلہ وقار کو سمجھنے والے لوگوںنے چاربنیادوں پربنگلہ دیش بنایاتھا:سیکولرازم، جمہوریت ،شوسلزم اوربنگلہ قومیت ۔ آج قابل غور یہ بات ہے کہ بنگلہ دیش کی بنیاد کس حال میں ہے؟ بنگلہ دیش کو سمجھنے والے آزاد خیال لوگوں نے پہلے بھی اپنے ملک کو بچایاہے اورابھی بھی امید رکھنی چاہیے کہ یہ لوگ ملک کے تعمیر نوکیلئے واپسی کریں گے۔ یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ پانچ اگست کی تحریک ابھی ادھوری ہے۔ امریکہ میں بھی اقتدار تبدیل ہورہاہے اورامید کی جاتی ہے کہ جنوری2025ء میں صدارت سنبھالنے والے ڈونالڈ ٹرمپ بنگلہ دیش کے اقتدار کو ایک سیکولر اورآزاد خیال افراد کے ہاتھوںمیں دلوانے کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اوراقلیتوں کے تحفظ کو لے کر بھی سوالات اٹھائے ہیں، ان کا اپنا کردار کتنا شفاف ہے ، یہ الگ بات ہے۔
داخلی طور پر ایسا بالکل نہیں ہے کہ بنگلہ دیش پر جماعت کاہی قبضہ ہوگیاہو ۔ آنے والے دنوں میں چناؤ تو کروانے ہی ہوں گے اوراس میں عوامی لیگ کو طاقت دکھانے کا موقع ملے گا۔ عوامی لیگ قطعی کمزور نہیں ہے ۔اس کی بنیاد بہت گہری ہے اوراس کے وجود کو پاکستان کی ناانصافی نے طاقت بخشی ہے۔ اگران دنوں عام چناؤ میں اکثریت حاصل کرنے والی شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو پاکستان میں اقتدار سونپ دیاگیاہوتاتو نہ وہاں بغاوت ہوتی اورنہ بنگلہ دیش وجود میں آتا۔ عوامی لیگ کی لیڈر شیخ حسینہ اس وقت ہندوستان میں ہیں اوران کے بنابھی لیگ مضبوطی سے چناؤ لڑسکتی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں عوامی لیگ کی موجودگی ہے۔ امید ہے جو بنگالی معاشرہ اپنی ثقافت کیلئے 1947ء سے لڑتاآیاہے وہ بشمول ثقافت کو نہیں چھوڑے گا۔ پہلے لگ رہاتھا کہ محمدیونس ملک کو بھنور سے نکال لیں گے ، پرحقیقت یہ ہے کہ ان کی شبیہ اب بہت اچھی نہیں رہی۔ یونس کو چھوٹی قرض اسکیموں کیلئے جاناجاتاہے۔ اس میں سود کابھی التزام ہے اورظاہرہے کہ سود کواسلام میں ناجائز ماناجاتاہے۔ بی این پی اورجماعت اسلامی بھی یونس کو نہیں مانتے تھے مگر مجبوری میں انہیں ذمہ داری سونپنی پڑی۔ کہاجاتاہے کہ دراصل وہ محض چہرہ ہیں اوران کی قیادت میں بنی حکومت غیرجاندار نہیں ہے۔ جے این یو پروفیسر سنجے بھاردواج کا نظریہ ہے کہ بنگلہ دیش میں صرف ہندو ہی نشانے پر نہیں ہیں ، بودھوں کے جو علاقے ہیں وہاں مسلمانوں کو بسانے کی کوشش ہورہی ہے۔ وہاں کے اصل باشندے چکما کو بنگلہ ترک کرکے ہندوستان کے شمال مشرق میں پناہ لینی پڑی ہے۔وہاں روہنگیائیوں کو بسایاجارہاہے۔ لیکن میرا مانناہے کہ روہنگیا کو پناہ دے کر بنگلہ دیش نے ایک مہذب معاشرہ ہونے کا ثبوت دیاہے۔ بنگلہ دیشی معاشرہ عام طور پر کسی فرقہ کے خلاف ناانصافی یازیادتی کرنے کا عادی نہیں ہے لیکن حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ تشدد اورزیادتی بھی کرجاتے ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی میں لاکھوں غیربنگالی مسلمانوں کا قتل ہوا۔ بہر حال ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوںمیں بنگلہ دیش میں سب کچھ بہتر ہوگا اورایک مستحکم حکومت برسراقتدارہوگی جو نہ صرف وہاں کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے گی بلکہ ہندوستان کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات کو فروغ دے گی۔