ڈاکٹر برہمدیپ الونے
عرب میں اسد کا مطلب ہمت اور بہادری کے ہیں۔ لیکن شام میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہاں کے باشندوں کے لیے بشار الاسد ایک بے رحم اور ظالم وجابر حکومت کی علامت ہے۔ مغربی ایشیا کے اس تاریخی ملک میں جمہوریت کو کچل کر اور ڈھائی دہائیوں تک آمرانہ حکومت قائم کرنے والے صدر بشار الاسد باغی گروپوں کے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہو کر ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ تاریخی، ثقافتی اور جیو پولیٹیکل نقطہ نظر سے اہم اس ملک کا تزویراتی محل وقوع سپر پاورز کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہا ہے اور اسد نے اقتدار میں رہنے کے لیے اپنے ملک کو عالمی مقابلے کے لیے جنگ کا میدان بنا دیا تھا۔ شام کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ اسد کا تعلق شیعہ سے رہا ہے۔2000 سے برسراقتدار اسد کی آمریت سے تنگ عوام نے 2011 میں ان کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس دوران لوگ عرب بہاریہ سے متاثر تھے اور یہیں سے شام میں خانہ جنگی کی شروعات ہوئی تھی۔
یہ مظاہرے آہستہ آہستہ مسلح تصادم میں تبدیل ہوگئے۔ مختلف ممالک نے اپنی اپنی سیاست اور حکمت عملی کے مطابق اس میں مداخلت کی۔ روس اور ایران نے اسد حکومت کی حمایت کی جبکہ امریکہ، ترکیہ اور دیگر مغربی ممالک نے مختلف مخالف گروپوں کی حمایت کی۔ جب ان مظاہروں کو اسد نے پرتشدد طریقے سے دبایا تو یہ تنازع آہستہ آہستہ خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا۔ حکومت حامی قوتوں کو شیعہ حامی قوت کہا جانے لگا، جس میں ایران اور حزب اللہ شامل ہوگئے، جب کہ سنی تنظیموں کو ترکیہ اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہوئی، اس جنگ نے نہ صرف شام کی معیشت اور بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کیا، بلکہ شہریوں کے لیے بھی بے پناہ مشکلات پیدا کیں۔ ان تنازعات کے نتیجے میں نقل مکانی اور مہاجرین کے بحران میں اضافہ ہوا۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر دیا۔ یہ بحران ایک انسانی المیہ کی شکل میں سامنے آیا جس میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں اور اربوں ڈالر مالیت کا معاشی نقصان ہوا۔ شام کے سابق صدر بشار الاسد کی معزولی کے چند گھنٹوں بعد ہی شامی شہریوں کی پڑوسی ممالک لبنان اور اردن سے واپسی شروع ہو گئی ہے۔ پورے شام میں جشن منایا جارہا ہے کیوں کہ بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
شام نسلی اور مذہبی اعتبار سے ایک متنوع ملک ہے۔ ہر ذات اور کمیونٹی اپنے اپنے علاقوں میں رہتی ہے اور ان کے درمیان مختلف سماجی، ثقافتی اور مذہبی شناختوں کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے۔ اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں اہم کردار ھیئۃ تحریر الشام نامی تنظیم کا ہے۔ یہ ایک جہادی تنظیم ہے جس کا تعلق القاعدہ سے تھا لیکن بعد میں اس نے اپنی شناخت الگ کر لی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد اسد حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور اس کے لیے وہ ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ ھیئۃ تحریر الشام کو سنی گروپ کہا جاتا ہے اور یہ شناخت شام میں امن کے امکانات کو داغدار کر سکتی ہے۔
حالاں کہ یہ تنظیم گزشتہ کچھ سال سے خود کو ایک قوم پرست قوت کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس پردیگر نسلی گروپ اعتماد کریں گے، اس میں گہرے شکوک و شبہات ہیں۔ ھیئۃ تحریر الشام پر ملک کی کرد تنظیمیں بالکل اعتماد نہیں کرسکتیں۔ کرد کمیونٹی شام کی کل آبادی کا تقریباً 10 سے 15 فیصد ہے۔ کرد بنیادی طور پر شام کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ علاقے ترکیہ اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ کرد شام کے شمالی علاقوں میں ایک کرد خود مختار علاقہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ھیئۃ تحریر الشام کو ترکیہ کی حمایت حاصل ہے، جب کہ کردوں کے لیے اردگان کی پالیسیاں بہت سخت اور جارحانہ رہی ہیں۔ ترک حکومت کردوں کے الگ ملک کے مطالبے کو اپنی خودمختاری کے لیے خطرناک سمجھتی ہے۔ ترکیہ میں کردوں کی آبادی تقریباً 15 سے 20 فیصد ہے اور وہ بنیادی طور پر ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں رہتے ہیں جو سرحد سے متصل ہیں۔ ترک حکومت نے تاریخی طور پر کردوں کی ثقافتی شناخت، زبان اور خودمختاری کو دبایا ہے۔ اس کے نتیجے میں کردوں میں عدم اطمینان اور مخالفت کا احساس پیدا ہوا ہے، جو وقتاً فوقتاً پرتشدد تنازعات کی شکل اختیار کرکے سامنے آیا ہے۔ ترکیہ نے اپنی سرحد کے قریب فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں جس میں ہزاروں کرد شہری اور جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
شام میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد کردوں کا کردار بہت اہم ہو گا۔ اگر اقتدار پر ترکیہ کا اثر برقرار رہا تو ملک میں کردوں کی پرتشدد تحریک بڑھ سکتی ہے اور یہ شام میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بشار الاسد کا تعلق جس علوی برادری سے ہے،وہ شام کی کل آبادی کا تقریباً 12فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی بنیادی طور پر شام کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس کمیونٹی کا سیاسی اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے۔ شام کی 90 فیصد آبادی مسلمان اور 10 فیصد عیسائی ہے۔ سنی مسلمان کل آبادی کا 74 فیصد ہیں جبکہ شیعہ تقریباً 13 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ملک کی تقریباً 5 فیصد آبادی یعنی ڈروز کمیونٹی خاص طور پر جنوبی شام کے علاقوں میں رہتی ہے۔ یہ علاقے اردن اور لبنان کی سرحد کے قریب ہیں۔ مسیحی برادری شام کے مغربی علاقوں اور ساحلی علاقوں میں بھی آباد ہے۔
ھیئۃ تحریر الشام اس وقت شام میں سب سے مضبوط باغی تنظیم ہے۔ شام کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ تنظیم کس طرح شیعوں، عیسائیوں اور کردوں کے درمیان مفاہمت کرتی ہے۔ اسد خاندان کے دور میں شیعہ کمیونٹی نے طویل عرصے تک اقتدار میں رہ کر جس سخت انداز میں جمہوری اور عوامی تحریکوں کو دبانے میں کردار ادا کیا تھا، اس کا غصہ اکثریتی سنی عوام میں یقینا ہی ہوگا۔ بہرحال شام کو ابھی عالمی اور داخلی محاذوں پر بہت سی پیچیدگیوں سے گزرنا ہے لیکن اسد کے زوال نے شام کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔