شام کی حیران کن صبح نو امیدیں اور اندیشے: ڈاکٹر محسن عتیق خان

0

ڈاکٹر محسن عتیق خان

اتوار کی صبح جب انقلابی فوجیں دمشق میں داخل ہوئیں تو پانچ دہائیوں پر محیط شام کے ایک طویل تاریک عہد کا خاتمہ ہو چکا تھا، ایک ظالم ڈکٹیٹر اپنے پیچھے تشدّد و زیادتی اور ظلم و بربریت کی ایک لمبی اور خونریز داستان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر چکا تھا- شام کو نہ صرف خانہ جنگیون نے تباہ کر رکھا تھا، بلکہ وہ عالمی طاقتوں کا مشق ستم تھا کبھی روس کے لڑاکا ہوائی جہاز کسی شہر پر بموں کی بارش کرتے تو کبھی امریکا کسی شہر پر میزائل برساتا اور کبھی ترکی اسکی حدود میں داخل ہوکر کردوں کے علاقے میں حملے کرتا، ہر ایک اپنے مفاد کے تحفّظ کے لئے اپنے موافق گروپ کے سپورٹ میں دوسرے گروپ کے مقبوضہ علاقوں پر ہوائی حملے کرتا رہتا جس میں عام طور سے بے گناہ عوام کا جانی ومالی نقصان ہوتا، ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت ہی نہ ہو- حقیقت یہ ہے کہ شام عالمی طاقتوں کا تختہ مشق بنا ہوا تھا، جہاں وہ معصوم لوگوں کی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر اپنے طرح طرح کے اسلحے ٹیسٹ کر رہے تھے اور اپنے مفاد کے تحفّظ کے نام پر ایسا گھناؤنا کھیل کھیل رہے تھے جو انسانیت کو شرمسار کرنے والی ہے۔

ان سب کے بیچ دو ہفتے قبل، شام کے مختلف جنگجو گروپ جو آپس میں ایک لمبے عرصے سے دست و گریباں تھے حیرت انگیز طور پر متحد ہوتے ہیں اور فتح و کامرانی کی راہ پر نکل پڑتے ہیں، وہ شہر پر شہر اور قصبے پر قصبے بغیر کسی اہم مزاحمت کے فتح کرتے چلے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دمشق میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح شام کا پورا علاقہ ان کے زیر نگیں آجاتا ہے۔ اس تبدیلی سے ایک طرف شامی عوام جوش و ولولے سے پر نظر آرہی ہے، انہیں ایک لمبے عرصے بعد کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے، اور ان کے اندر امید کی کرن جاگ اٹھی ہے، تو وہیں دوسری طرف لوگ پوری دنیا میں حیرت زدہ ہیں اور ماہر تجزیہ نگار پریشان ہیں، ہر ایک یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا؟ اسکے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے؟ کچھ کا کہنا ہے کہ اس میں ترکی کا ہاتھ ہے جو شام کے پناہ گزینوں اور کرد باغیوں کے مسئلے سے مستقل پریشان رہا ہے، کچھ اسے صہیونی اور امریکی پشت پناہی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ بشار الاسد روس اور ایران کے ہمنوا تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دینا ابھی کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ شام میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ ایک چھوٹی سے عالمی جنگ چلتی رہی ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا شام کی یہ انقلابی صبح نو حقیقی معنوں میں شامی عوام کے لئے آزادی، خود مختاری، اتحاد، عدل و انصاف اور امن و آشتی کا پروانہ لے کر آئی ہے، کیا یہ اسے استحکام بخشے گی، کیا اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے گی یا پھر اس کا حال بھی وہی ہوگا جو ڈکٹیٹر کے سقوط کے بعد صومالیہ، لیبیا اور سوڈان کا ہوا ہے؟ یقینا ہمیں پر امید رہنا چاہیے کیونکہ انقلابی فوجوں کے لیڈر احمد شرع کی طرف سے ہمّت افزا بیانات آئے ہیں جس میں انہوں نے ہر فریق کی حفاظت اور شامیوں کے اتحاد کی بات کی ہے لیکن حقیقت سے آنکھیں بھی نہیں چرانا چاہیے۔

اگر یہ متحارب جماعتیں جو بشار الاسد کے خلاف ایک جٹ ہوئی تھیں آپس میں ایک قابل عمل پاور شیئرنگ معاہدہ بنا پاتی ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لئے ایک بڑی کامیابی ہوگی بلکہ یہ شام میں استحکام کا ضامن ہوگا۔ لیکن ایچ ٹی ایس (HTS) جو اس انقلابی اتحاد کا ایک سرکردہ گروپ اور القاعدہ کی ایک سابقہ شاخ ہے ایس این اے (SNA) گروپ یعنی سیرین نیشنل آرمی کے ساتھ شدید اختلافات رکھتا ہے- ایس این اے اس اتحاد کا دوسرا سب سے بڑا گروپ ہے اور اس کی مالی اعانت، اس کے لئے اسلحہ کی فراہمی اور اسکی جنگی تربیت کا ذمہ ترکی نے لے رکھا ہے۔ یہ ایس این اے بذات خود چھوٹی مسلح تنظیموں کا ایک مجموعہ ہے جو 2017 تک مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہی ہیں، اور جنہیں ترکی نے ایک پلیٹ فارم پر لاکر ایک کچے دھاگے سے باندھنے کی کوشش کی ہے۔ ترکی ایس این اے جنگجوؤں کی تنخواہیں بھی فراہم کرتا ہے اور اس کے دو بریگیڈ سلطان مراد اور سلطان سلیمان عثمانی سلا طین کے نام سے موسوم ہیں۔ یہ ترکی کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے اور اسی لیے ایچ ٹی ایس اس سے نفرت کرتا ہے۔

ایس ڈی یف SDF جو کردوں کا گروپ ہے کسی بھی عرب اور ترک گروپ کے لئے اپنی آزادی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا اور اپنے علاقوں میں امریکی فوجی اڈے اور اور تیل کے کنوئوں کے ساتھ کردوں کے لئے آزاد ریاست یا کم از کم زیادہ خود مختاری والی حکومت کی کوشش کرے گا جیسا کہ عراق میں انہوں نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ لہٰذا دریائے فرات کے مغرب میں مشرقی کرد اور باقی شام کے درمیان شام کی تقسیم ممکن نظر آتی ہے۔ جہاں تک جبل دروز کے دروز لوگوں کی بات ہے، جو پہلے ہی 2015 میں النصرہ (ایچ ٹی ایس کا سابقہ نام) کے ہاتھوں جولانی کی قیادت میں قتل عام سے دوچار ہو چکے ہیں وہ یقینی طور پر مقامی خودمختاری کا مطالبہ کریں گے اور اندیشہ ہے کہ کہیں شام کے ساحلی علاقے کے علوی بھی اسی کی پیروی نہ کرتے نظرآئیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تو ایچ ٹی ایس، جولانی اور نہ ہی ترک حمایت یافتہ گروپ جمہوری ڈھانچے پر یقین رکھتے ہیں۔ پچاس سالوں پر محیط اپنی آمرانہ تاریخ کے ساتھ شام کو جمہوری نظام کا کوئی تجربہ نہیں رہا ہے۔ صرف ایک چیز جس نے ان تمام گروہوں کو متحد کیا وہ بشار الاسد تھا، جو اب منظرنامے سے غائب ہو گیا ہے، ایسی صورت میں یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی اگر یہ مختلف گروہ اپنے عطیہ دہندگان ممالک کی طرف سے کی جانے والی چالبازیوں کی حدود متعین کر سکیں اور مل جل کر سیاسی حل تلاش کرسکیں تاکہ شام کو استحکام حاصل ہو اور وہاں پر امن وامان قائم ہو سکے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS