اسلام میں انسانی خون کا احترام: ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

0

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

دنیا کے مدبّرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ’’اگر کسی قوم کی تہذیب اور ثقافت کا معیار معلوم کرناہوتو جنگ میں دشمن کے ساتھ اس قوم کے سپاہیوں کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرنا چاہیے‘‘۔ چنانچہ جب ہم اس کسوٹی پر اسلام اور اس کے متبعین کو کَس کر دیکھتے ہیں ، تو مسلمان سب سے ممتاز، بلند حوصلہ اور فیاض دکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو آج مغرب اور مہذب دنیا میں بھی ایک باقاعدہ قانونِ جنگ موجود ہے لیکن یہ اس لیے تشنہ اور غیر منصفانہ ہے ، کہ اس کا دائرہ عمل صرف ’’مہذب‘‘ یعنی یوروپین اقوام تک محدود ہے۔ جہاں تک غیر یوروپین اور کمزور قوموں کے ساتھ رواداری اور نرمی برتنے کا تعلق ہے سو اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ بلکہ اس کے خلاف یہ کمزور قوموں پر انسانیت سوز مظالم کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔

اس کے برعکس اسلام کے عقیدہ عدل وانصاف کی رو سے نہ تو کسی غیر ملکی کو دوسرے پر فوقیت دی جاسکتی ہے اور نہ اپنے فرائض کو ادا کرنے اور نہ کرنے والوں کے مابین کوئی فرق وامتیاز روارکھاجاسکتاہے۔ اور اگرچہ یہ امر تعجب خیز معلوم ہوتاہے لیکن حقیقت یہی ہے اور یہ امر محض نظریہ ہی تک محدود نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کیاجاتارہاہے۔ مثال کے طورپر ان لوگوں کے قتل کے معاملے کو لیجیے، جنہیں دشمن کی طرف سے بطور ضمانت مسلمانوں کے سپرد کردیاجاتاہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں انہیںقتل کردینے کے واقعات عام ہوگئے تھے۔ اْس زمانے میں بازنطینی سلاطین اور مسلمانوں کے مابین جو معاہدات طے ہواکرتے تھے ان کی تعمیل وتکمیل کی ضمانت کے طورپر فریقین اپنے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کے حوالے کردیاکرتے تھے اور معاہدات میںخصوصیت کے ساتھ یہ شرط شامل کی جاتی تھی کہ اگر بازنطینی سپردکردہ مسلمانوں کو شہید کردیں گے تو مسلمان بھی بطورِ انتقام بازنطینیوں کو ہلاک کردینے کے مجاز ہوں گے۔اس سلسلہ میں تاریخ اسلام کے دوواقعات پیش کردینے کافی ہوں گے۔ ایک واقعہ امیرمعاویہؓ کے عہد حکومت میں پیش آیاتھا، اورد وسرا خلیفہ منصور کے زمانے میں۔ اور ان دونوں واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اگرچہ بازنطینی سلاطین نے معاہدہ کے خلاف فیصلہ صادرکیا اور یہ فیصلہ اس بنا پر کیاگیا کہ مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار وہ بازنطینی نہیں جو دار الخلافہ میں موجود ہیں ، بلکہ اس فعل کی ذمہ داری بازنطینی سلاطین پر عائد ہوتی ہے۔ اورقرآن اْن بے گناہ بازنطینیوں کو مستوجب سزا قرار نہیں دیتا۔پھر شریعت اسلامی کی رو سے دورانِ جنگ میں عورتوں، بچوں اور اْن لوگوں کا قتل ممنوع ہے جو مقابلہ پر نہیں آتے۔ حتیٰ کہ اگر دشمن مسلمانوں کے بچوں اور مسلمان عورتوں کو قتل بھی کردیں تو بھی مسلمان ان کے بچوں اور ان کی عورتوں پر تلوار اْٹھانے کے مجاز نہیں۔ مختصر یہ کہ مسلم قوم ہی وہ پہلی قوم اور واحد قوم ہے جس نے دنیا کے روبرو، حقیقی معنوں میں بین الاقوامی جنگی قانون پیش کیاہے‘‘۔ (نگارشات ڈاکٹر محمد حمید اللہ حصہ دوم، صفحہ 302-303)

دین ِاسلام کو بدنام کرنے کی کوششیںزوروشور سے جاری ہیں۔یہاں تک کہ ان کا نظریہ’’تمدن کا ٹکرائو‘‘ میںبھی دن بہ دن اضافہ ہورہاہے۔ اسلام کے خلاف الزامات اور اتہامات کی کثرت کے باوجود، اس کے آفاقی پیغام کے ذریعے پورے عالم میں امن وسکون وسیع پیمانے پر محسوس کیاجارہاہے۔
برطانیہ کی حالیہ مردم شماری رپورٹ کے مطابق وہاں مسلمان 39لاکھ ہیں جو آبادی کا 5،6فیصد حصہ ہے۔ اس طرح برطانیہ میں اسلام سب سے زیادہ پھیلنے والامذہب ہوگیاہے۔
ہم اسلام کا حالیہ منظرنامہ اور اس کی اثرانگیزی برطانوی محقق Rose Kendricکے درج ذیل بیان سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’اگلے بیس سالوں میں مذہب تبدیل کرنے والے برطانوی لوگوں کی تعداد ان مسلمان پردیسیوں کے برابر ہوجائے گی یا بڑھ جائے گی جویہاں مذہب اسلام لے کر آئے ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتی ہیں:’’اسلام اتنا ہی بڑا عالمی مذہب ہے جتنا رومن کیتھولک مذہب ہے‘‘۔

اپنی کتاب’’Islam Under Siege‘‘ میں اکبر ایس احمد نے اس مذہب کے مستقبل کو لے کرکچھ بیش بہا بصیرت افروز باتیں پیش کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’اکیسویں صدی اسلامی صدی ہوگی‘‘۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام صرف ایک مافوق الفطرت مذہب نہیں ہے بلکہ یہ منطقی وحدانیت پیش کرتاہے اور انسانیت کے تمام مسائل اور پریشانیوں کا یہ واحد علاج ہے۔سب سے بڑھ کراسلام ذات اور مسلک کے کسی امتیاز کو تسلیم نہیں کرتاہے۔ نبی اکرم حضرت محمد ؐ نے پرزور انداز میں مکہ کے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایاتھا:’’ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ نہ کسی گورے شخص کو کسی کالے شخص پر کوئی فوقیت ہے۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہواور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی‘‘۔
معروف عالمِ دین مولانا سید ابو الحسن علی حسنی نے بالکل درست فرمایاہے:’’اسلام کا خواہ انفرادی یا اجتماعی انانیت اور پندار ذات سے کچھ لینادینا نہیں ہے۔جب یہ جذبات خاندان یا جماعت کے فخر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جیسے مشرق یا مسلم ممالک میں، یا برطانوی شہنشاہیت اور امریکی سرمایہ داری یا روسی کمیونزم جیسے مغربی دنیا، تو وہ ظاہری طور پر غیر اسلامی ہیں۔یہ نظام اپنی قسمت کچھ وقت کے لئے تو چمکاسکتے ہیں، لیکن آخر کار ان کو چلے جاناہے۔ انسانی ضمیر کو لامحدود طور پر دھوکا نہیں دیاجاسکتاہے۔عالم کا مزاج بلاتفریق اسلام کے عدل اجتماعی سے مربوط ہے‘‘۔ (Islam and the Wrold, P. 195)

یہ بات بار بار کہی جاسکتی ہے کہ صرف اسلام ہی پورے عالم میں امن وآشتی کا ماحول پیداکرسکتاہے اوردور جدید کے سنگین مسائل کو حل کرسکتاہے۔ برنارڈ شا کے الفاظ میں:’’اسلام ہی تنہا وہ مذہب ہے جو مجھے لگتاہے کہ وجود کے تغیر پذیر مراحل کو اپنے اندر سمولینے کی اہلیت رکھتاہے اور ہر دور کے لیے سازگار ہوسکتاہے‘‘۔

H.A.R.Gibbرقمطراز ہیں:’’اسلام نے انسانیت کی فلاح کا ایک اور کام کیاہے۔کسی دیگر معاشرے کانوعِ انسانی کی اتنی مختلف اور کثیر برادریوںکا حیثیت ،مواقع اور جدوجہد کی برابری میں کامیابی کا ایسا ریکارڈ نہیں ہے۔افریقہ، ہندوستان اور انڈونیشیا کی عظیم مسلم آبادیاں، اور شاید جاپان کی چھوٹی مسلم آبادی یہ سب دکھاتے ہیں کہ اسلام اب بھی واضح طورپر نسل اور روایت کے ناقابلِ مصالحت عناصر میں مفاہمت کرانے کی قوت رکھتاہے۔اگر کبھی مشرق ومغرب کے عظیم معاشرے کے حزب اختلاف میں باہم تعاون ہو ، تو اسلام کی وساطت ایک ناگزیر شرط ہوگی‘‘۔ (H.A.R.Gibb, Whither Islam London, 1932, P. 379)

سروجنی نائیڈو اظہار رائے کرتی ہیں:’’شعورِ عدل اسلام کے حیرت انگیز نمونوں میں سے ایک ہے، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں پڑھتی ہوں تو پاتی ہوں کہ زندگی کے وہ متحرک اصول، راہبانہ نہیں ہیں بلکہ روزانہ کی زندگی کے لیے عملی اخلاقیات ہیں جو پورے عالم کے لیے موزوں ہیں‘‘۔(Sarojini Naidu, Lecture on “The Ideals of Islam”, Vide Speeches and Writings of Sarojini Naidu, Madras, 1918, P. 1767)
سروجنی نائیڈو مزید فرماتی ہیں:’’یہ وہ پہلا مذہب تھا جس نے جمہوریت کی اشاعت کی اور اس پر عمل کیا۔ کیونکہ مسجد میں جب مناروں سے اذان کی صدابلند ہوتی ہے اور نمازی ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، تو جمہوریتِ اسلام دن میں پانچ مرتبہ مجسم ہوتی ہے ، جب کاشتکار اور بادشاہ ایک ساتھ دوزانو ہوتے ہیں اور پکارتے ہیں: ’’صرف اللہ ہی بڑاہے‘‘۔مجھے اسلام کے اس ناقابلِ تقسیم اتحاد نے بار بار حیران کیاہے جو ایک انسان کو امتیازی طور پر بھائی بنادیتی ہے۔ جب آپ کسی مصری،کسی الجیریا کے شخص، کسی ہندوستانی یا ترکی کے کسی شخص سے لندن میں ملتے ہیں، تو جو شے مناسبت رکھتی ہے وہ صرف یہ ہوتی ہے کہ مصر ایک کا مادرِ وطن ہے اور دوسرے کا مادرِ وطن ہندوستان ہے‘‘۔ (ایضًا، صفحہ 169)
De Lacy O’Learyتحریر فرماتے ہیں:’’تاریخ سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کو بہالے جانے والی اور تلوار کی نوک پر مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر اسلام کو زبردستی تھوپنے ولی متعصب مسلمانوں کی روایت سراسر بے سروپا افسانہ ہے جسے مؤرخین نے دہرایاہے‘‘۔ (De Lacy O’Leary, Islam at the Crossroads, London, 1923, P. 8)

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلام کا اصل مقصد بلاامتیاز مذہب وملک اور رنگ ونسل کے بھٹکتی انسانیت کو صراطِ مستقیم کی طرف لے جاناہے اور انہیں برائیوں اور گندگیوں سے پاک کرکے بھلائیوں اور خوبیوں سے آراستہ کرناہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے ایک کثیر جہتی معاشرہ کی تشکیل کی جہاں ہرمذہب کے ماننے والے امن وسکون کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ آپ کی حیات طیبہ میں متعدد جنگیں اور سرایا پیش آئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام معرکوں میں مقتولین کی تعداد ایک ہزار اٹھارہ تھی وہ بھی فریقین کی یعنی مسلمانوں اور کفار کی۔ اسلام پر الزام لگانے والے اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے والے اگر صرف اسی تعداد پر غور کریں تو ان کے لیے اسلام کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ اب ذراسوچیں ان قوموں کی تاریخ پر جو اپنے آپ کو مہذب گردانتے ہیں۔ یاد رکھیے وہ صرف اپنے لیے مہذب ہیں غیروں کے لیے نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام درحقیقت اسی بنیادی امتیاز کو مٹانے کے لیے آیاتھا۔ اسلام کے نزدیک پوری دنیا ایک کنبہ کے مانند ہے اور آج بھی اسلام اسی مشن پر قائم ہے۔ اب ان اقوام کی تاریخ ملاحظہ کریں۔صرف فرانسیسی انقلاب میں چھبیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ روس میں اشتراکی انقلاب میں ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں۔پہلی عالمی جنگ میں تہتر لاکھ اڑتیس ہزار لوگ مارے گئے۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ میں ایک کروڑ چھہ لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اور اسی طرح فلسطین میں 5000ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا گیا ،اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

مختصراً اسلام انسانی خون کے احترام کا اعلان یوں کرتاہے:’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ 33:5

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS