سبھی کے تعاون سے ہی ہوگا انسانی حقوق کا تحفظ : راجیش منی

0

راجیش منی

2024 کے یوم انسانی حقوق کی تھیم ’’عدم مساوات کو کم کرنا اور انسانی حقوق کو آگے بڑھانا‘‘ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی گہری عدم مساوات کو دور کرنے کی ضرورت کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے۔ یہ تھیم یہ پیغام دیتی ہے کہ عدم مساوات صرف معاشی اور سماجی سطح پر ہی نہیں بلکہ صنف، ذات پات، مذہب اور علاقائی تفریق کی صورت میں بھی موجود ہے، جو معاشرے میں نفرت، تشدد اور تقسیم کو جنم دیتی ہے۔ ان عدم مساوات کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب تک ہم ان امتیازی ڈھانچوں کو ختم نہیں کریں گے، تب تک ہم سب کے لیے یکساں مواقع، مساوی انصاف اور یکساں ترقی کو یقینی نہیں بنا سکتے۔ عدم مساوات نہ صرف ان افراد کو متاثر کرتی ہے جن پر وہ براہ راست اثر انداز ہوتی ہے بلکہ یہ مجموعی طور پر معاشرے کے لیے منفی نتائج بھی پیدا کرتی ہے۔ جب خواتین، بچے، اقلیتیں یا دیگر کمزور طبقات اپنے حقوق سے محروم رہتے ہیں تو ان کا تعاون معاشرے میں کم ہوجاتا ہے اور اس سے معاشرے کی مجموعی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا عدم مساوات کو کم کرنا صرف ایک قانونی یا انسانی حقوق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ضروری قدم ہے جو معاشرے کی خوشحالی اور امن کے لیے ضروری ہے۔

’’عدم مساوات کو کم کرنا اور انسانی حقوق کو آگے بڑھانا‘‘کی تھیم ہمیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ عدم مساوات صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ ادارہ جاتی اور ساختی سطح پر بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر تعلیم، صحت کی خدمات اور روزگار میں امتیازی سلوک کی وجہ سے بہت سی کمیونٹیز کو مساوی مواقع حاصل نہیں ہوپاتے۔ اس طرح، کچھ کمیونٹیز کے پاس وسائل اور مواقع ہوتے ہیں، جبکہ دیگر اپنے بنیادی حقوق تک رسائی حاصل نہیں کرپاتیں۔ اس کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم سماجی، اقتصادی اور سیاسی نقطہ نظر سے یکساں مواقع کی ضمانت دیں، تاکہ تمام طبقات اور کمیونیٹز کو ان کے حقوق کا مکمل طور پر ادراک ہوسکے۔ اس کے لیے مؤثر قوانین اور پالیسیوں کا ہونا ضروری ہے جو ان عدم مساوات کو ختم کرنے میں مدد کریں، ساتھ ہی ان قوانین اور پالیسیوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جب لوگ اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہوں گے تو وہ ان عدم مساوات کے خلاف کھڑے ہوسکیں گے اور اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے۔

یہ حقوق نہ صرف شخص کی آزادی اور وقار کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ہر شہری کو اس کی زندگی، شخصیت اور سماجی حیثیت سے قطع نظر یکساں عزت و احترام اور مواقع ملیں۔ انسانی حقوق کے اصول کی بنیاد ’انسانیت‘ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر انسان کو اپنے وجود کے لیے مساوی حقوق حاصل ہیں، چاہے اس کا رنگ، مذہب، ذات، جنس یا قومیت کچھ بھی ہو۔ یہ حقوق زندگی، آزادی اور ذاتی تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں، جو کسی بھی دوسرے حق سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستانی آئین میں بھی ان حقوق کی اہم موجودگی ہے، جو شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل21 کے تحت زندگی اور شخصی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے اور یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی کو بھی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سوائے قانونی عمل کے۔ مزید برآں، آئین ان افراد کو سزا دینے کا التزام کرتا ہے جو ان حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

اس تناظر میں ہندوستانی آئین اور قانونی دفعات پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ یہ آئین نہ صرف شہریوں کو ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ تاہم، ان قانونی دفعات کے باوجود، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے معاملے میں کئی علاقوں میں حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ صرف ایک قانونی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ خواتین کو تعلیم، صحت، روزگار اور عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے لیکن آج بھی بہت سی خواتین کو تشدد، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔ اسی طرح بچوں کے سب سے بنیادی حقوق تعلیم، تحفظ اور صحت ہیں لیکن لاکھوں بچے چائلڈ لیبر، جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتے ہیں جس سے ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ اس لیے خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ صرف قانونی نقطہ نظر سے ہی نہیں، بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ سماجی کوششوں کی ضرورت ہے۔

اسی طرح بچوں کے حقوق کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ وہ معاشرے کا کمزور ترین طبقہ ہوتے ہیں۔ بچوں کے سب سے بنیادی حقوق تعلیم، صحت اور حفاظت ہیں۔ لیکن لاکھوں بچے آج بھی تعلیم سے محروم ہیں اور انہیں چائلڈ لیبر، جسمانی اور ذہنی تشدد جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بچوں کا بچپن چھن جاتا ہے اور ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ بچوں کو ایک محفوظ اور غذائیت بخش ماحول کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق ترقی کر سکیں اور معاشرے میں اپنا تعاون دے سکیں۔ اس طرح خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ اور فروغ ایک سنگین سماجی ضرورت بن جاتا ہے۔

ہندوستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے28ستمبر 1993کو ایک اہم قانون نافذ کیا گیا اور اس کے بعد 12اکتوبر 1993کو ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ قائم کیا گیا۔ یہ کمیشن انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے معاملات کی جانچ کرتا ہے اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ کمیشن شہری اور سیاسی حقوق کے ساتھ ساتھ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔ حالاں کہ کمیشن اور قوانین کی موجودگی کے باوجود، آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد، استحصال اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے ان طبقوں کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آپارہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیداری کی کمی اور موثر نفاذ کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔

یوم انسانی حقوق کے موقع پر ہمیں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور معاشرے میں بیداری میں اضافہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس دن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق صرف قانونی التزام نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ہمیں آئین کے آرٹیکلز پر عمل کرتے ہوئے ان حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشرے کے ہر فرد کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انسانی حقوق صرف حقوق ہی نہیں بلکہ یہ فرائض بھی ہیں جن کی پاسداری ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اگر ہم صحیح معنوں میں ایک منصفانہ اور مساوی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں ہر خاتون اور بچہ اپنی آزادی کے ساتھ جی سکے، جہاں انہیں کسی قسم کے جبر، امتیازی سلوک یا عدم مساوات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسا معاشرہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم انسانی حقوق کے تئیں اپنی بیداری میں اضافہ کریں اور اس سمت میں مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ صرف تب ہی ہم اس بات کو یقینی بنا سکیں گے کہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے اور معاشرے میں مساوات اور انصاف کو فروغ دیا جارہا ہے۔
ایسا ماحول بنایا جائے جس میں انسانی حقوق کو تسلیم کیا جائے، معاشرے کا ہر طبقہ اس کے تئیں بیدار رہے، یہ صرف حقوق نہیں بلکہ ہر کسی کو اپنی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ اور یہ خاندان سے شروع ہو کر معاشرے اور برادری میں نظر آرہے ہمارے ملک کی عظمت اور وقارہے، جہاں مختلف ذاتوں اور مذاہب کو یکساں نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

(مضمون نگار ہیومن سروسز انسٹی ٹیوٹ ’سیوا‘ کے ڈائریکٹر اور سماجی کارکن ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS