قیصر محمود عراقی
اسلام کا منشا اور مرضی یہ ہے کہ مسلمان خود ایک ایسی تعلیم کا نمونہ بن کر رہیں کہ دوسرے لوگ یہ محسوس کریں کہ مسلمان بحیثیت امت ایک منفرد اور قابل تقلید قوم ہیں۔ اسی لئے حضور اکرمﷺ نے ہدایت فرمائی کہ مسلمان آپس میں اسی طرح ایک دوسرے سے منسلک رہیں جس طرح دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کو سہارا دیئے رہتی ہیں اور یہ سب ملکر خود کو ایک مضبوط اور مستحکم دیوار کی حیثیت سے قائم رکھتی ہیں، مسلمان بھی آپس میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر رہیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت کی حیثیت سے اس دنیا میں عزت اور حرمت کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے۔ اس اتحاد پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ بھی ارشاد فرماتا ہے’’بلاشبہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں(سورۃ حجرات)۔ جب تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں تو ان کا نفع بھی مشترک اور ان کا نقصان بھی ایک ہے، ان کی طاقت ان کا اتحاد ایک ہے، انہیں دنیا کی دوسری قوموں پر اس لئے بھی برتری حاصل ہوگی کہ مسلمان امت کی برتری اور فلاح کی کوشش کرتا ہے اور اتحاد واتفاق قائم رکھنے کیلئے بڑی سے بڑی انفرادی قربانی پیش کرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اتحاد امت کا ہی فیضان ہے کہ کسی زمانے میں مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور کامیاب قوم تھے، ان کی حیثیت ایک مضبوط اور مستحکم دیوار کی سی تھی۔ مگر جیسے جیسے لوگ اس مستحکم دیوار کی اینٹیں نکال نکال کر اپنے اپنے م مفادات کے قلعے تعمیر کرنے لگے، ویسے ویسے ان کی عزت ووقار کی یہ عظیم دیوار کمزور ہوکر آہستہ آہستہ ٹوٹنے اور بکھرنے لگی۔ پورے عالم اسلام کی بات چھوڑیں آج بھارت کا مسلمان ہر طرف ہندوستان میں کیا سے کیا درد ناک منظر دیکھ رہا ہے اور کیوں دیکھ رہا ہے؟ وہ اس لئے کیونکہ مسلمان نے احکام قرآنی کو نظر انداز کرنے کا گناہ کبیرہ کیا ہے، مسلمانوں نے ہادی برحق اور حضور پرنور ﷺکی ہدایت سے انحراف کیا ہے۔ اس لئے آج یہ قوم مفلوک الحال ہے اور امت کا ہر فرد ملت پریشان ہے۔ موجودہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ملت کی شیرازہ بندی کی جتنی آج ضرورت ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ آج ہمیں یکجہتی اور فکری ہم آہنگی کی ضرورت ہے، مگر افسوس صد افسوس چند مفاد پرست مولوی اور مسلکی مولوی جو اجتماعیت سے اجتناب ، مرکزیت سے گریز ، اختلافات کو فروغ اور ذہنوں کو شک و تذبذب میں مبتلا کرنے والے ظاہری مسلمان ہوکر مسلمانوں کے صف میں گھس آئے ہیں اور جو اذہان ایک نظریے اور ایک عقیدے پر متحد ومتفق تھے ،ان کے اتحاد واتفاق میں ان مولویوں نے رخنہ ڈال دیامسلک کے نام پر ۔ اسلام کی روح ووحدت فکر وعمل کو پارا پارا کرڈالا صرف اور صرف چند کھنکتے ہوئے سکّوں کی خاطر۔یہ عمل چند لمحوں یا چند دنوں میں نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ مسلک کا بیج بویا گیا اور جب اس نے تناور درخت کی شکل اختیار کر لی تو اس کے بعد سے اس کے برگ وبار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ان مولویوں نے اپنے اپنے مسلک کی اتباع میں اس حد تک غلو کیا کہ اپنے اماموں اور فقہاکو رسول کا درجہ دے دیا اور کتاب وسنت کی اتباع کو بالائے طاق رکھ دیا، جس وجہ سے بھولی بھالی امت ان کے پھیلائے مسلکی جال میں پھنس گئی اور اس مسلکی تعصب کی وجہ سے امت آج حق سے کوسوں دور ہوتی جارہی ہے۔
تفرقے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اسلام کے اعتقادات اور تعلیمات کی نئی نئی تعبیرات اور تشریحات کی مخالفت وموافقت شروع ہوگئی، مسلمان گروہ در گروہ تقسیم ہوتے چلے گئے، مسالک وفرقے وجود میں آتے چلے گئے، موافقت کی معرکہ آرائیاں شروع ہوگئیں، ان معرکہ آرائیوں نے ذہنوں کو مفلوج کردیا ، نکتہ آفرینیوں اور اپنے موقف کی تائید میں موشگافیوں سے مزید نئی نئی الجھنیں پیدا ہوگئیں، اپنے مخصوص زاوئیہ فکر کی روشنی میں اپنے زورِ علم اور زورِ قلم سے سیدھی سادی بات کو بھی چیستاں بناکر نئے نئے معنی ومفہوم کے انبار لگادیئے گئے، اس طرح تفرکے کی وسعت میں ہمہ جہت اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اضافے کا غالب عنصر جائز وناجائز اور افکار ونظریات کی اصلاحات ٹھہرا۔ امت مسلمہ وحدت فکر وعمل کو چھوڑ کر جائز اور ناجائز اور افکار ونظریات کی اصلاح کے شکنجے میں پھنس گئی، ہر صاحب علم کے جائز وناجائز کے پیمانے انفرادی ہوگئے، نتیجتاً امت فکری اشتہار کا مجموعہ بن گئی، غیر اہم اور فروعی معاملات نے اہمیت اختیار کرلی، مخالفت وموافقت کی گرم بازاری کے دور ہی سے شخصیت پرستی نے جڑ پکڑ لی ، مسلمانوں میں تفرکہ کا آغاز ہوچکا تو مسلمانوں نے فرقوں میں بٹ جانے کے بعد اپنے آپ کو مختلف شخصیات سے منسوب کرلیا، بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مسلمانوں نے قرآن وحدیث کی باتوں کو بالائے طاق رکھا اور اپنے آپ کو مسلکی مولویوں کے حوالے کردیا۔ اب مسلکی مولوی جو بھی من گھڑ ت قصے اور کہانیاں سناتا ہے، آج کا نادان مسلمان اسے ہی قرآن وحدیث کی باتیں سمجھتا ہے، کبھی قرآن حدیث کو کھول کر تحقیق بھی نہیں کرتا، اگر آج کے مسلمانوں کی اکثریت کی حالت کا مشاہدہ کیا جائے تو یہی پتہ چلے گا کہ مودی کے اندھ بھکتوں سے بھی کہی بد تر یہ آج کے مسلمان ہیں جو مولویوں کے اندھ بھکت بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحصیل علم ، تحقیقات اور ایجادات سے مسلمانوں کا واسطہ ختم ہوگیا، تعلیم اور تعمیل کو ذہنوں میں راسخ کردیا گیا ، یعنی جو کچھ تعلیم دی جارہی ہے ، بس اس کی تعمیل کرو، لفظی گرفت سے بات کو کہیں سے کہیں پہنچادیا گیا ، انتہائی غیر اہم بات کو انتہائی اہم بناکر دفتر کے دفتر سیاح کردیا گیا ، ہر شخصیت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا جو فہم دین ہے وہی صحیح ہے، باقی سب باطل ہے۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا سے لیکر آج تک ہر دور میں ایسے درد مند ، سعید فطرت صاحبان علم ودانش موجود ہیں جو مسلسل اور مستقل اسلام کی تعلیمات اور صحیح معتقدات کو اجاگر کرنے اور تفرکے کی بیخ کنی میں لگے رہے اور لگے ہوئے ہیں، تاہم خاطر خواہ نتائج کیلئے شاید مزید سعی وکوشش درکار ہے۔ تفرکے نے اسلام کو کیسی زک پہنچائی ہے، ہر صاحب عقل شعور اس سے واقف ہے، اس لئے اب امت کو بیدار ہونا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والے کون ہیں ، کون سے ایسے عناصر ہیں جو ہماری یکجہتی کے دشمن ہیں، ان اسلام دشمنوں کو تلاش کرنا مشکل نہیں ، آپ خود کو متحد کرلیں دشمن خود بخود شکست کے دلدل میں جا گرینگے۔ امت دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کہیں شادی بیاہ ہوتی ہے تو ہم وہاں مسلک نہیں دیکھتے ہر کسی کو دعوتِ طعام دیتے ہیں اور سب خوشی خوشی دعوت میں شرکت بھی کرتے ہیں، اسی طرح کسی کی میت پر بھی ہم بلا امتیاز مسلک وملت جنازہ کو کاندھا دینے پہنچ جاتے ہیں، لیکن نماز پڑھنے کی بات آتی ہے تو اپنی اپنی مسجد ہم تلاش کرتے ہیں۔ اس سے پتہ یہی چلتا ہے کہ جنہیں ہم دین کے رہنما سمجھتے ہیں در حقیقت وہی دین کے دشمن ہیں، امت کو مسجد سے دور کرنے والے مسلک کے نام پر یہی موجودہ دور کے مسلکی مولوی ، جاہل مولوی اور مفاد پرست مولوی ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ذات رسول ﷺ اور اسوہ حسنہ پر پوری طرح عمل پیرا ہوکر کھلے اور خوفیا دشمن کو بے نقاب کریں اور ان کا مقابلہ کریں ۔ اور مقابلہ کیلئے ہر فرد جو خود کو سچا اور پکا مسلمان کہتا اور سمجھتا ہے وہ آپس میں متحد ہوکر مسلکی مولویوں کو جو مسلک کے نام پر امت میں پھوٹ ڈالتے ہیں، مفاد پرست مولویوں کو جو اپنی مفاد کی خاطر بزرگوں کے قصے سناتے ہیں، جاہل مولویوں کو جو من گھڑت حدیثیں بیان کرتے ہیںانہیں اپنی اپنی مسجدوں کی منبروں سے اتاریں اور باہر کا راستہ دکھائیں اور ایسے حق پرست علما کو وہ جگہ دیں جہاں سے وہ صرف اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی بات کرے، اختلافات کی بات نہ کرے، مسلک کی بات نہ کرے، بلکہ قرآن وحدیث کی بات کرے اور اسی کے مطابق امت کو چلنے کی تلقین کرے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایسے مسلکی مولویوں کے چنگل سے نکال کر دین کے راستے پر لگادے ، تاکہ امت تاعمر اللہ کی پسندیدہ دین ، دین اسلام پر اور رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر گامزن رہے، اور کسی مسلکی مولوی چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر کا ہو اس کے جھانسے میں آنے نہ پائے۔(آمین)