ڈاکٹر سعیداللہ ندوی
بابری مسجد کی شہادت ایک سنگین اور تاریخی واقعہ ہے جس نے نہ صرف بھارت کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتحال کو متاثر کیا بلکہ پورے خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگیاں بھی بڑھا دیں۔ اس واقعہ کے پیچھے مختلف کردار اور عوامل کارفرما تھے، جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس کی گہرائی اور پیچیدگی کو بہتر طریقے سے جانچا جا سکے۔
تاریخی پس منظر:بابری مسجد 1528 میں مغل بادشاہ بابر کے حکم سے اجودھیا میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوئوں کا دعویٰ تھا کہ اس مسجد کی جگہ پر ہندو مذہب کے اہم ترین دیوتا، رام، کا جنم ہوا تھا اور اس جگہ کو ’’رام جنم بھومی‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہندو قوم پرست جماعتوں نے یہ دعویٰ کیا کہ بابری مسجد کی تعمیر ایک ہندو مندر کو توڑ کر کی گئی تھی۔بابری مسجد کا تنازعہ اور سیاسی کھیل:1990 کی دہائی کے اوائل میں بھارتی سیاست میں اہم تبدیلیاں آئیں اور ہندو قوم پرست جماعتیں، بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)، اس مسئلے کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانے لگیں۔ 1986 میں علی گڑھ کے ڈسٹرکٹ جج نے بابری مسجد کے دروازے کھولنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں وہاں ہندوؤں کا اجتماع بڑھا اور رام جنم بھومی تحریک نے زور پکڑا۔1989 میں، سنگھ پریوار، خاص طور پر وی ایچ پی (ویشوا ہندو پریشد) اور بجرنگ دل نے ایک مضبوط تحریک شروع کی جس کا مقصد بابری مسجد کو ہندوؤں کے قبضے میں دینا تھا۔ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہجوم جمع کرنے کے لئے یاتریوں کی شکل میں مہمات چلائی گئیں۔ بابری مسجد کی شہادت (6 دسمبر 1992):6 دسمبر 1992 کو ہزاروں کی تعداد میں ہندو انتہاپسندوں نے اجودھیا پہنچ کر بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کا اہم کردار تھا جنہوں نے اس کارروائی کو مذہبی اور سیاسی طور پر جواز فراہم کیا تھا۔ مسجد کی شہادت نے پورے بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا جس میں سیکڑوں افراد کی جانیں گئیں۔عدالتی اور سیاسی نتائج:بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت کی سیاست میں فرقہ وارانہ تنائو میں مزید اضافہ ہوا۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے کئی دہائیوں تک اس معاملے کی سماعت کی اور 2019 میں اپنے تاریخی فیصلے میں کہا کہ مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی جائے گی اور مسلمانوں کو متبادل جگہ دی جائے گی۔عدلیہ کا یہ فیصلہ ایک طرف تو اس تنازعے کو قانونی طور پر حل کرنے کی کوشش تھا، مگر اس کے سیاسی اثرات بھی بہت زیادہ تھے۔
مسلمانوں کا موقف:مسلمانوں کا موقف یہ تھا کہ بابری مسجد ایک تاریخی اور قانونی حیثیت رکھتی تھی اور اس کی شہادت مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سیکولر دستور کے خلاف تھی۔ مسلمانوں کے لیے یہ صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ ایک ثقافتی اور مذہبی شناخت کے خاتمے کا معاملہ تھا۔ ہندو قوم پرستوں کا موقف:ہندو قوم پرستوں کی نظر میں بابری مسجد کی شہادت ایک جیت تھی جس کا مقصد ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ کو درست کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس جگہ پر ایک عظیم رام مندر تھا جو مغل حکمرانوں کے دور میں منہدم کر دیا گیا تھا اور اس کی تعمیر نو ضروری تھی۔
معاشرتی اور سیاسی اثرات:بابری مسجد کی شہادت نے ہندوستانی سماج میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ کشیدگیاں پیدا کیں۔ اس کا اثر صرف اجودھیا تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں فسادات، تشدد اور سیاسی بحران کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کے علاوہ، اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی کو مزید تقویت دی، جس کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں نے اٹھایا۔
نتیجہ:بابری مسجد کی شہادت ایک سنگین واقعہ تھی جس نے ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ واقعہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی زخم ہے، بلکہ اس نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔ اس تنازعے کا حل صرف قانونی سطح پر نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی ضروری تھا تاکہ امن و آشتی کی فضا بحال ہو سکے اور تمام اقلیتی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔