عبدالحلیم منصور
بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے حوالے سے کئی تنازعات اور سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا جمہوریت کی حقیقت کو چھپانے کے مترادف ہوگا۔ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ای وی ایم کے قانونی استعمال کو تسلیم کیا گیا ہے، تاہم اس فیصلے کے باوجود عوامی اعتماد کی بحالی ایک سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے۔
ای وی ایم کے حوالے سے سب سے بڑا سوال اس کی شفافیت اور اعتبار پر ہے۔ عوام اور اپوزیشن جماعتوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ ای وی ایم کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور انتخابی نتائج میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔ یہ شکوک اس وقت مزید شدت اختیار کرتے ہیں جب انتخابات میں غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں، جیسے 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں کچھ ریاستوں میں بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی نے اپوزیشن کے اندر ای وی ایم کی ساکھ پر سوالات اٹھائے۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ای وی ایم کا استعمال قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے وی وی پی اے ٹی (ووٹٹر ویری فائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل) کی تصدیق کا دائرہ 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ فیصلہ ای وی ایم کے بارے میں عوامی اعتماد کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی شکوک اب بھی برقرار ہیں۔ اپوزیشن نے اس فیصلے کو “ادھورا قدم” قرار دیتے ہوئے ای وی ایم کی مکمل جانچ پڑتال اور وی وی پی اے ٹی کی 100 فیصد تصدیق کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا صرف 5 یا 10 فیصد تصدیق سے عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے؟
ای وی ایم کے خلاف عالمی اعتراضات:
اگر ہم گزشتہ انتخابات کے نتائج کی طرف نظر ڈالیں، تو ای وی ایم پر اٹھنے والے سوالات کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بعض ریاستوں میں ای وی ایم کی گنتی کے بعد غیر متوقع نتائج سامنے آئے، جن پر عوام نے شدید اعتراض کیا۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں اپوزیشن جماعتوں کی مقبولیت تھی، ای وی ایم کے ذریعے نتائج میں آنے والی تبدیلیوں نے عوام کے ذہنوں میں شک پیدا کیا۔ ایک مثال 2019 کے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چنڈی گڑھ کے انتخابات میں سامنے آئی، جہاں ای وی ایم پر ہونے والے اعتراضات نے انتخابی عمل پر سوالات اٹھائے۔ عالمی سطح پر بھی ای وی ایم کے استعمال پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جرمنی، نیدرلینڈ اور آئرلینڈ جیسے ممالک نے ای وی ایم کے استعمال کو ترک کر دیا ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ای وی ایم میں دھاندلی کے امکانات زیادہ ہیں اور بیلٹ پیپرز زیادہ شفاف اور قابل اعتماد ہیں۔اس بحث میں عالمی شخصیت ایلون مسک کا بیان بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ایلون مسک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ٹیکنالوجی اور خودکار نظام میں شفافیت کا فقدان ہو سکتا ہے، اور اس حوالے سے اس نے ای وی ایم کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مسک نے ایک موقع پر کہا تھا کہ “ان مشینوں کی ساکھ کو مزید تقویت دینے کے لیے جدید تکنیکی حل کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہ سکے”۔ ان کے مطابق، ای وی ایم میں ہیکنگ اور نتائج کی تبدیلی کا امکان ٹیکنالوجی کے کسی بھی دوسرے نظام کی طرح موجود ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
سیاسی جماعتوں کے تحفظات:
بی جے پی اور کانگریس سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے ای وی ایم کے بارے میں مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔بی جے پی نے ای وی ایم کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ خاص طور پر کانگریس نے ای وی ایم کی شفافیت اور اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب تک ای وی ایم کی ہر مشین کی مکمل جانچ نہیں کی جاتی اور وی وی پی اے ٹی کی تصدیق 100 فیصد نہیں کی جاتی، تب تک انتخابی عمل پر عوامی اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔
عوامی اعتماد پر اثر:
ای وی ایم کے اثرات نہ صرف انتخابی نتائج بلکہ عوامی اعتماد پر بھی پڑتے ہیں۔جب عوام انتخابی عمل پر شکوک کا شکار ہوتے ہیں، تو جمہوریت کی بنیادیں کمزور پڑتی ہیں۔ ای وی ایم کے استعمال سے انتخابی عمل میں وقت کی کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ عوام کے اندر یہ خوف بھی پیدا ہو گیا ہے کہ نتائج میں ہیرا پھیری ہو سکتی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور ووٹرز میں اس طرح کے شکوک کا پیدا ہونا جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
ای وی ایم کا استعمال بھارت میں انتخابی عمل میں جدیدیت کا ایک قدم تو ہے، لیکن اس کے ساتھ جڑے تنازعات اور عوامی شکوک کو نظر انداز کرنا جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ای وی ایم نے جہاں انتخابی عمل میں تیزی اور شفافیت کا دعویٰ کیا ہے، وہیں اس پر اْٹھنے والے سوالات اور تنازعات نے عوامی اعتماد کو متاثر کیا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں اور عوام نے یہ خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ای وی ایم میں ہیکنگ اور دھاندلی کا امکان ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب انتخابات کے غیر متوقع اور متنازعہ نتائج سامنے آتے ہیں، جیسے 2019 کے عام انتخابات میں بعض ریاستوں میں ای وی ایم کے ذریعے سامنے آنے والے نتائج پر شدید اعتراضات اٹھے۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح پر بھی ای وی ایم کے استعمال کو ترک کرنے والے ممالک نے اس کی شفافیت اور اعتبار پر سوالات اٹھائے ہیں، جیسے کہ جرمنی اور نیدرلینڈنے ای وی ایم کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسے ترک کر دیا ہے۔ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ای وی ایم کے استعمال کو قانونی طور پر درست قرار دیا گیا ہے، مگر عدالت نے وی وی پی اے ٹی کی تصدیق کا دائرہ بڑھانے کی ہدایت دی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ای وی ایم کی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود، عوامی شکوک کی مکمل دوری کے لیے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اور انتخابی کمیشن ای وی ایم کے ذریعے انتخابی عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات نہیں کرتے، تو یہ جمہوریت کے استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ انتخابات میں عوام کا اعتماد بحال کرنا جمہوریت کے لیے ضروری ہے، اور ای وی ایم کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مزید قانونی اور تکنیکی اصلاحات درکار ہیں تاکہ عوام کے اعتماد کو واپس حاصل کیا جا سکے اور جمہوریت کا یہ بنیادی ستون مضبوط رہے۔
اہم سوالات اور تجاویز:
کیا 10 فیصد وی وی پی اے ٹی تصدیق عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے کافی ہے؟کیا بھارت میں ای وی ایم کا استعمال عالمی معیارات پر پورا اترتا ہے؟اور کیا اپوزیشن کا مطالبہ حقیقی عوامی مسئلہ ہے یا سیاسی حربہ؟یہ سوالات بھارت میں انتخابی شفافیت کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ای وی ایم کی شفافیت کے لیے چند تجاویز کے تحت ای وی ایم پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کیلئے درج ذیل اصلاحات ضروری ہیں۔وی وی پی اے ٹی کی 100 فیصد تصدیق ہو کیونکہ ہر ووٹ کی تصدیق عوامی اعتماد کیلئے اہم ہے۔ای وی ایم کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ بنانے کیلئے مزید تکنیکی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شفاف نظام کا قیام کرتے ہوئے ووٹ کے انتخاب کو ووٹر کے لیے زیادہ واضح بنانا اور وی وی پی اے ٹی کی رسید فراہم کرنا ضروری ہے۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)