کامران غنی صبا
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
کیفی اعظمی کا یہ شعر اکیسویں صدی کے انسان کی نفسیاتی کیفیت کا بہترین ترجمان ہے۔ آج کا انسان انتہائی کرب میں ہے۔ وہ مصنوعی ہنسی ہنس رہا ہے۔ وہ اچھے لباس زیب تن ضرور کرتا ہے لیکن اس کی روح لہولہان ہے۔ وہ ریستوراں جاتا ہے، لذیذ کھانے کھاتا ہے، مسکراتے ہوئے سلفیاں لیتا ہے لیکن اس کے اندرون میں اضطراب ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ آئندہ دس برسوں میں ذہنی تنائو پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ دی پوانیئر(The Pioneer) 02 جون 2022 کی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے:
“According to a World Health Organisation (WHO( report, India has the highest number of depressed individuals in the world. This means that one out of three individuals in India suffers from depression.”
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں 300 ملین افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ڈپریشن کے سب سے زیادہ اثرات 20 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں میں دیکھے گئے ہیں۔ہر سال پوری دنیامیں تقریباً آٹھ لاکھ افراد خوکشی کرتے ہیں۔ مکمل اعداد و شمار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویب سائٹ (www.who.int) پر بھی دستیاب ہیں۔
ان اعداد و شمار سے قطع نظر اگر ہم اپنے گرد و پیش کی زندگی کا جائزہ لیں تب بھی ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی طور پر ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ بحیثیت استاد میرا زیادہ تر وقت اپنے طالب علموں کے ساتھ گزرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اکثر نوجوانوں کو نصاب پڑھانے سے کہیں زیادہ ضرورت ،کائونسلنگ کی ہوتی ہے۔ نئی نسل انتہائی ڈپریشن کا شکار ہے۔ وہ اپنے ڈپریشن کو کم کرنے کی جتنی کوشش کرتی ہے، اس کا ڈپریشن اسی قدر بڑھتا جاتا ہے۔طبی اصطلاح میں ذہنی تناؤ کی بنیادی طور سے تین قسمیں ہیں۔
1۔ انزائٹی(Anxiety)
2۔اسٹریس (Stress)
3۔ ڈپریشن (Depression)
یہ تینوں قسمیں ذہنی تناؤ کی مختلف کیفیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ماہرین نفسیات ان نفسیاتی کیفیات کی مختلف وجہیں بتاتے ہیں۔ مثلاً خوف، تردد، ،معاشی خاندانی تعلیمی اور سماجی مسائل، روزگار سے متعلق مسائل وغیرہ۔ لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ سارے مسائل حالیہ چند برسوں کی پیداوار نہیں ہیں۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل بھی خاندانی، سماجی اور معاشی مسائل تھے۔ روزگار کا مسئلہ تب بھی تھا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو اْس زمانے میں مشکلات آج سے کہیں زیادہ تھیں۔ آج کی طرح کھانے کے انواع و اقسام نہیں تھے۔ زیادہ تر لوگوں کے مکانات انتہائی معمولی یا اس سے بھی کم معیار کے ہوا کرتے تھے۔آج کی طرح رنگ رنگ کے ملبوسات بھی نہیں تھے۔ تفریح کے جتنے ذرائع ابھی موجود ہیں، پہلے کچھ بھی نہیں تھے۔ سفر کرنا مشکل تھا۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام انتہائی مشکل تھے۔ کپڑے دھونا، کھانا بنانا، مصالحے پیسنا، بازار جانا، خریداری کرنا سب کچھ آج کے تناظر میں زیادہ مشکل تھا۔لیکن ان سب کے باوجود اْس زمانے میں بلڈ پریشر کی شکایت نہیں ہوا کرتی تھی۔ہارٹ اٹیک اوربرین ہمریج جیسی طبی اصطلات عام نہیں ہوئی تھیں۔سائکیاٹرسٹ (Psychiatrist) کسے کہتے ہیں لوگ نہیں جانتے تھے۔
اس حوالے سے اگر غور کیا جائے تو یہ سارے مسائل انسان کے اپنے خود ساختہ ہیں۔ وہ خود سے خود کو اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔اس نے اپنی توقعات اور اپنے خود ساختہ معیار کے پیمانے کو اتنا بڑا کر لیا ہے کہ اْسے بڑی بڑی خوشیاں بھی چھوٹی لگنے لگی ہیں۔ وہ پہلے سے زیادہ اچھا کھانا کھا رہا ہے لیکن پھر بھی مہنگائی کی فکر اسے پریشان کر رہی ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ اچھے مکان میں رہتا ہے، لیکن اپنے آس پاس کے عالیشان مکانات کو دیکھ کر احساس کمتری کا جذبہ مسلسل اسے اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ اْسے اپنی تکلیف سے زیادہ دوسروں کی خوشیوں سے پریشانی ہے۔
ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ روحانی قدروں کا ختم ہو جانا بھی ہے۔ روحانی اقدار کے ختم ہونے کی وجہ سے قناعت، توکل، صبر اور ایثار کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی جتنی سادہ ہوگی، ڈپریشن اسی قدر کم ہوگا۔ آج ہماری زندگی کا ہر شعبہ تصنع کی چادر سے ڈھک چکا ہے۔ گفتگومیں تصنع، نشست و برخاست میں تصنع، تحریر میں تصنع، تقریر میں تصنع، تعلیم میں تصنع، گھر میں تصنع، عبادت گاہوں میں تصنع، معاملات میں تصنع۔ ہم وقت اور ماحول کے مطابق تصنعات کے مختلف چہرے بدلتے رہتے ہیں اور جب تنہائی میں ہم اپنے حقیقی چہرے کو دیکھتے ہیں تو اذیب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ اذیت ہی ڈپریشن ہے۔
اللہ پر یقین کامل انسان کو ڈپریشن سے بچاتا ہے۔ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں وہ اِس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا کام محض کوشش کرنا ہے۔ نتیجے کا اختیار کل ذاتِ واحد کے پاس ہے۔ لہٰذا اگر کوشش کے باوجود کامیابی نہ ملے تو اللہ پر یقین رکھنے والے لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے بلکہ مرضی مولیٰ سمجھ کر اس یقین کے ساتھ صبر کرتے ہیں کہ جنہیں نتیجے کی فوری خوشی نہیں ملتی انہیں صبر کا دیرپا انعام ملتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے دوستوں کو ڈپریشن یعنی خوف اور غم نہیں ہوتا۔ خوف اور غم کو ہی ماہرین نفسیات ڈپریشن کہتے ہیں۔ اللہ کے دوست وہ ہیں جو اپنی خواہش پر کبھی ضد نہیں کرتے۔ راضی بہ رضا رہنے والوں کو اولیاء اللہ کہتے ہیں، ایسے لوگ خوف اور غم کی حدود سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جس طرح ماہرین نفسیات ہمارے ذہنی رویے کو پڑھ کر ہمارے ذہنی دبائو کو، ڈپریشن کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں مختلف قسم کے علاج بتاتے ہیں، ورزشیں بتاتے ہیں، اْسی طرح اولیا اللہ ہمارے روحانی رویے کو پڑھ کر اوراد و وظائف بتاتے ہیں۔ ہمارے ذہن کی کثافتوں کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر کی صحبت میں رہنے والاکمپائونڈر ڈاکٹر نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اسے بہت ساری بیماریوں کا علاج معلوم ہوتا ہے، دوائوں کے نام پتہ ہوتے ہیں، اْسی طرح اولیا اللہ کی صحبت میں رہنے والے اولیاء اللہ نہیں ہوتے ل