ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
سکھ ازم کا آغاز پندرہویں ویں صدی عیسوی میں ہند کے پنجابی خطے میں ایک عظیم شخصیت گرو نانک جی کی رہنمائی میں ہوا، جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود، برابری اور امن کے اصولوں کو پروان چڑھانے کے لیے وقف کیا۔ سکھ مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی انسانوں کا خالق، مالک اور پرورش کرنے والا ہے۔ سکھوں کے لیے خدا کی عبادت کا طریقہ کسی رسمی عبادت کے بجائے اپنی روزمرہ کی زندگی میں سچائی، ایمانداری، محبت، اور خدمت کو اپناناہے۔اس مذہب کی تعلیمات میں انسانوں کے درمیان محبت، اتحاد اور مساوات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، اور یہ اصول کہ انسانوں کو اپنی زندگی میں سچائی، ایمانداری اور خدمت کے طریقوں کو اپنانا چاہیے، سکھ ازم کی ریڑھ کی بنیاد ہیں۔سکھ مذہب میں خدا کا تصور بہت واضح اور صاف ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں اور وہ تمام مخلوقات کا خالق اور پرورش کرنے والا ہے۔ گرو نانک جی نے ہمیشہ اس بات کی وضاحت کی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس کی قدرت میں کسی کا دخل ہے۔ سکھ ازم کے مذہبی متن گرو گرنتھ صاحب میں گرو نانک جی کا قول ہے کہ ’’اک اور ایہو جانا، وہ ہی پرماتما، وہ ہی سچ، وہ ہی آتما، وہ ہی شانتی ہے‘‘۔
اس کے مطابق، سکھوں کا عقیدہ اور یقین ہے کہ اللہ ایک ہی ہے، وہی سب کچھ ہے اور وہ ہر انسان کے دل میں موجود ہے۔ سکھ ازم کے متبعین کے لیے اس ایک اللہ کی پرستش کا طریقہ کسی بھی رسمی عبادت کے بجائے، اپنی زندگی میں سچائی، ایمانداری، محبت اور خدمت کو اپنا کر اس کے قریب پہنچنا ہے۔ سکھ مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی مرضی میں جتنی بھی تبدیلیاں آتی ہیں، وہ سب انسانوں کے لیے ایک سبق اور ایک امتحان ہے، جس سے انسان کو اپنی روحانیت کی بلندیاں حاصل کرنی چاہیے۔
لوگوں کی خدمت اور فلاح کا تصور: سکھ مذہب میں لوگوں کی خدمت (سیوا) اور دوسروں کی فلاح کی اہمیت پر بے شمار ہدایات موجود ہیں۔ سکھوں کے لیے خدمت ایک عبادت کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے، چاہے وہ مالی امداد ہو، جسمانی مدد ہو، یا روحانی رہنمائی ہو۔ گرو نانک جی نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت کو سب سے اہم عمل قرار دیا، اور ان کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد کرنے، بے کسوں کی خدمت کرنے اور غریبوں کو کھانا دینے کی تاکید کی گئی ہے۔ گرو نانک جی کی اس تعلق سے ہدایت گرو گرنتھ صاحب کے انگ 343 میں کچھ یوں ہے۔ ’’نہ دشمنوں سے لڑنا ہے، نہ کسی سے جھگڑا کرنا ہے، بس انسانیت کے ساتھ جیو اور دوسروں کی خدمت کرو‘‘۔
یہ ہدایات سکھوں کے لیے ایک رہنما اصول کے طور پر ہیں، جن کے مطابق انسان کا اصل مقصد صرف اپنے لیے جینا نہیں بلکہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا ہے۔ سکھ مذہب کے مطابق، جب انسان دوسروں کی خدمت کرتا ہے تو وہ نہ صرف دنیا میں اچھائی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اپنی روحانی ترقی کے راستے پر بھی گامزن ہوتا ہے۔ اس لیے سکھوں کے لیے خدمت کا تصور ایک مقدس اور عبادت والا عمل سمجھا جاتا ہے۔
سخاوت اور صدقہ کی اہمیت : سکھ مذہب میں صدقہ اور سخاوت کی اہمیت بھی بہت زیادہ اور واضح ہے۔ یہ دونوں عمل صرف انسانوں کی مدد کرنے کے طریقے نہیں ہیں، بلکہ سکھوں کے لیے یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے عوامل بھی ہیں۔ گرو نانک جی نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ یہ کہا کہ انسان کو اپنی کمائی کا کچھ حصہ ضرور دوسروں کی فلاح کے لیے خرچ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے انسان کے دل میں محبت اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب کے انگ 407میں موجود ہے کہ ’’اپنی کمائی کا ایک حصہ دوسروں کو دو، تاکہ تمہارے دل میں ایثار اور سخاوت کا جذبہ پیدا ہو‘‘۔
اس کے مطابق سکھوں کے لیے صدقہ دینا ایک روحانی عمل ہے جس سے انسان نہ صرف دوسرے کی مدد کرتا ہے بلکہ اپنی روحانی ترقی کے منازل بھی طے کرتے جاتا ہے۔ سکھوں کے عقیدے کے مطابق، سخاوت کا عمل خدا کی خوشنودی کا ذریعہ ہے اور اس سے انسان کی روح پاک ہوتی ہے۔
لنگر کا نظام: سکھ مذہب میں لنگر کا نظام ایک منفرد خصوصیت کا حامل ہے، جو گرو نانک جی کی رہنمائی میں قائم کیا گیا تھا۔ لنگر کا مقصد ایک ایسا نظام قائم کرنا تھا جس میں ہر انسان کو بلا تفریق مذہب، رنگ، یا ذات کے کھانا فراہم کیا جا سکے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر کسی کو عزت دی جاتی ہے اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے۔ لنگر کے ذریعے سکھوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انسانیت کی خدمت میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے اور ہر انسان کو یکساں حقوق اور عزت دی جانی چاہیے۔ گرو نانک جی نیکہا ، گرو گرنتھ صاحب کے انگ 1245 میں ہے کہ ’’سب کو یکساں عزت دو، سب کی خدمت کرو، اور ہر انسان کو برابر سمجھو‘‘۔
لنگر کایہ نظام صرف کھانے کی تقسیم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے سکھوں نے انسانوں کے درمیان مساوات اور محبت کا پیغام بھی دیا ہے۔ سکھوں کا عقیدہ ہے کہ جب ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرتا ہے، تو وہ خود کو بہتر انسان بنا سکتا ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت بڑھتی ہے۔
سیوا :سکھ مذہب میں ’’سیوا‘‘ (خدمت) کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایک روحانی عبادت کے طور پر اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سیوا کا مقصد صرف دوسروں کی مدد کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعے انسان کے اندر سے خودغرضی، بڑائی اور تکبر کو باہر نکالنا ہے۔ گرو نانک جی نے سکھوں کو حکم دیا کہ انسان کو نہ صرف اپنے لیے جینا ہے بلکہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی جینا ہے۔ گرو نانک نے کہا ، گرو گرنتھ صاحب کے انگ552 میں ہے کہ ’’خود کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیو، یہی سچائی ہے‘‘۔
اس طرح سیوا کا عمل انسان کی روحانی ترقی کا ایک اہم حصہ ہے، کیونکہ اس میں انسان کو خدا کی رضا حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سکھوں کے مطابق،جب کوئی شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے تو وہ اپنی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے اور اس کی زندگی میں سکون آتا ہے۔
سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق، خدمت کا دائرہ صرف مقامی سطح تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عالمی سطح پر بھی غریبوں،مسکینوں، یتیموں، بیوائوں، اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا چاہیے۔ سکھ کمیونٹی نے اول دن سے ہی اپنے دلوں میں انسانیت کی خدمت کے جذبے کو پروان چڑھایا اور دنیا بھر میں انسانوں کی مدد کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ سکھوں نے نہ صرف اپنے علاقے میں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں بھی فلاحی کاموں کے ذریعے لوگوں کی مدد کی ہے۔
دنیا بھر میں سکھوں کی مختلف تنظیمیں اور کمیونٹیز انسانوں کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہیں۔یہ تنظیمیں بین الاقوامی سطح پر کھانا، تعلیم، صحت اور پناہ گزینی کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ سکھ کمیونٹی نے قدرتی آفات اور جنگوں کے دوران بھی ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اپنی خدمات فراہم کی ہیں۔ مثال کے طور پر، سکھوں نے مختلف ممالک میں قدرتی آفات جیسے زلزلے، طوفان، اور سیلاب کے دوران کھانے، پناہ گاہوں، اور طبی امداد کی فراہمی کے ذریعے لوگوں کی امداد کی ہے اور کرتے آرہے ہیں جس سے سکھوں کی تعلیمات کا عالمی سطح پر اثر اور ان کی انسانیت کی خدمت کا پیغام واضح طور پر سامنے آتا ہے۔
موجودہ دور میں جبکہ دنیا میں فلاحی کاموں، سخاوت اور خدمت کے تصورات پر زیادہ توجہ کی جارہی ہے ، سکھ مذہب کی تعلیمات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر میں معاشرتی تفریق، غربت اور انسانوں کے درمیان عدم مساوات کی بڑھتی ہوئی شکایات نے ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ سکھ مذہب کی تعلیمات کا پیغام آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ماضی میں تھا۔آج کے معاشرتی حالات میں، جہاں بہت سے لوگ مالی مشکلات، بیماریوں اور دیگر مختلف سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، سکھوں کی تعلیمات جیسے خدمت، سخاوت، اور لنگر کا نظام ایک بہترین مثال ہیں۔ اس دور میں جب بعض اوقات خودغرضی اور انا پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے، سکھ مذہب کی تعلیمات انسانوں کی خدمت اور برابری کا ،ایک طاقتور پیغام بن کر ابھرتا ہے۔چونکہ سکھوں کا یقین ہے کہ انسان کو صرف اپنے فائدے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینا چاہیے، اور یہی وہ تعلیمات ہیں جو آج کے معاشرتی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، سکھ مذہب کی تعلیمات نہ صرف ایک فرد کی روحانی ترقی کے لیے اہم ہیں بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی، انسانوں کے درمیان برابری، اور باہمی احترام کو فروغ دیتی ہیں۔ اس وقت جب دنیا میں جنگیں، نفرت اور فرقہ واریت بڑھ رہی ہیں، سکھ مذہب کا پیغام محبت، امن اور انسانیت کی خدمت کے بارے میں ہمیں ایک بہترین راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
الغرض ، سکھ ازم کی تعلیمات نے نہ صرف ہند- پاک بلکہ پورے عالم میں لوگوں کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا کہ مذہب کو صرف عبادات تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے انسانوں کی فلاح و بہبود، سماجی بہتری اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ گرو نانک کے پیغام آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں سکھوں کے فلاحی کاموں کے ذریعے ان کی تعلیمات کا اثر محسوس کیا جا رہا ہے۔ نانک جی کا پیغام کہ اصل روحانیت وہ ہے جو انسانوں کی خدمت اور دوسروں کے لیے فلاح کا سبب بنتی ہے ایک عالمی پیغام ہے جو ہر دور اور ہر ایک سماج میں انسانیت کے لیے ایک رہنما اصول کے طور پر کام کرتا ہے۔