اسد مرزا
’’آخرکار ایسا لگتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے اور باکو میں COP29 کے اجلاس میں، زیادہ تر مغربی ممالک نے نقصاندہ اخراج کی وجہ سے کرہ ارض کو تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے ایک نئے موسمیاتی عالمی فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ تاہم ہندوستان نے اس معاہدے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے، اس وقت تاریخ رقم ہوئی جب 200 ممالک، جن میں سے زیادہ تر گلوبل ساؤتھ سے تھے، نے گلوبل نارتھ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے واجبات کی ادائیگی کے لیے مجبور کیا، جس کے نتیجے میں، گلوبل ساؤتھ نے اپنی ماضی کی کوتاہیوں کے لیے فنڈز مختص کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلوبل ساؤتھ(یعنی کہ ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک) کے بیشتر ممالک کو اپنی معیشتوں اور شہریوں پر تیز رفتار موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے بارے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔اقوامِ متحدہ کے بیشتر ممالک نے گزشتہ ہفتے باکو، آذربائیجان میں COP29 میں ایک نئے موسمیاتی معاہدے پر اتفاق کیا، جس میں امیر ممالک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2035 تک غریب ممالک کو سالانہ 300 بلین ڈالر فراہم کریں گے تاکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے ہوئے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں ان کی مدد کی جا سکے، لیکن ترقی یافتہ ممالک کے اس معاہدے کو گلوبل ساؤتھ کے زیادہ تر ممالک نے انتہائی ناکافی قرار دیا ہے۔یہ معاہدہ دو ہفتوں سے زیادہ کی تلخ تقسیم اور اختلافی بات چیت کے بعد طے ہوپایا، بائیکاٹ، سیاسی جھگڑوں اور جیواشم ایندھن کے زیادہ استعمال کو روکنے کے موضوع پر بعض اوقات یہ خدشہ بھی ہوا کہ مذاکرات شاید ٹھپ ہوجائیں کیونکہ کمزور اور چھوٹے جزیروں کی ریاستوں اور کم ترقی یافتہ ممالک کی نمائندگی کرنے والے گروپ نے ہفتے کے روز مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کردیا۔ لیکن اتوار کو، ڈیڈ لائن کے تقریباً30 گھنٹے کے بعد بالآخر تقریباً 200 ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے پراتفاقِ رائے قائم ہوگیا۔
نیا موسمیاتی عالمی فنڈ:
یہ نیا معاہدہ 2035 تک سالانہ 300 بلین ڈالر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو فراہم کرے گا، جس سے امیر ممالک کے 2020 تک موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کے سابقہ وعدے کو تقویت ملے گی۔ اس سے پہلے کا ہدف دو سال کی تاخیر سے، 2022 میں پورا ہوا، اور 2025 میں ختم ہو جائے گا۔ اس معاہدے میں اگلے سال کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے زمینی کام بھی کیا ہے، جو کہ ایمیزون کے جنگلات میںبرازیل میں منعقد کیا جائے گا اور جہاں اگلی دہائی کے موسمیاتی عمل کا نقشہ بنایا جائے گا۔باکو اجلاس نے صنعتی ممالک کی مالی ذمہ داری پر بحث کو اپنا خاص موضوعِ بحث بنایا تھا- جن کے جیواشم ایندھن کے تاریخی استعمال کرنے نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے تاکہ دوسروں کو موسمیاتی تبدیلی سے بڑھتے ہوئے نقصان کی تلافی کی جاسکے۔
اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی سربراہ سائمن اسٹیل نے ان مشکل مذاکرات کو تسلیم کیا جس کی وجہ سے معاہدہ ہوا لیکن اس کے نتائج کو گلوبل وارمنگ کے خلاف انسانیت کے لیے انشورنس پالیسی کے طور پر سراہا بھی ۔ ’’یہ ایک مشکل سفر رہا ہے، لیکن ہم نے ایک معاہدہ کیا ہے…یہ ڈیل صاف توانائی کے فروغ کو برقرار رکھے گی اور اربوں زندگیوں کی حفاظت کرے گی۔” اسٹیل نے کہا۔
آب و ہوا کی تباہی:
اجتماعی طور پر،مختلف ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک اپنے جیواشم ایندھن کے استعمال کو کم کرنے میں اتنی سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ بہت سے سائنسدان 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف کو عملی طور پر ناقابلِ حصول سمجھتے ہیں۔ان ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فروری 2025 کی آخری تاریخ سے پہلے آنے والے مہینوں میں اخراج میں کمی کے تازہ ترین ہدف طے کرسکیں گے۔تاہم زیادہ تشویش چین اور امریکہ پر مرکوز ہے، جوکہ یہ دنیاکے سب سے بڑے گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ممالک ہیں،گوکہ مختلف وجوہات کی بنا پرچین عالمی اخراج کے 30 فیصد اور گزشتہ دہائی کے دوران اخراج میں دنیا کے تقریباً تمام اضافہ کیلئے ذمہ دار ہے۔
دوسری جانب امریکی عہد اس جانب اشارہ کرے گا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ یہ یقینی بنانے کی کوشش کرے کہ اس کے دستخط شدہ آب و ہوا سے متعلق قانون سازی، افراط زر میں کمی کا ایکٹ، صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے دورِ اقتدار کے دوران بھی پابندیِ عمل رہے گا۔ بہت سے اندرونی ذرائع کے مطابق، سعودی عرب نے کانفرنس میں انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق، ایک سعودی اہلکار نے مکمل مشاورت کے بغیر ایک اہم متن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ زیادہ تر پیٹرول بیچنے والے ممالک نے بھی بار بار کوشش کی کہ ’’جیواشم ایندھن سے جلد منتقلی‘‘ کے حوالہ جات کو معاہدے کے متن سے ہٹادیا جائے ،جس پر گزشتہ سال کے COP28 سربراہی اجلاس میں اتفاق کیا گیا تھا۔دبئی، متحدہ عرب امارات میں گزشتہ سال کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں،مختلف ممالک نے پہلی بار جیواشم ایندھن اور گلوبل وارمنگ کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا تھا، اور وسط صدی تک جیواشم ایندھن سے ’’منتقلی‘‘ پر اتفاق کیا تھا۔فنانس سے متعلق نئے معاہدے نے بالآخر جیواشم ایندھن سے جلد منتقلی پر گزشتہ سال کے اتفاق رائے کے عزم کی توثیق بھی کی ہے۔تاہم مندوبین نے ایک علیحدہ دستاویز کو مسترد کر دیا جس میں نظریاتی طور پر، فوسل فیول سے جلد منتقلی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، لیکن ان کا ترمیم کے کئی دور ختم ہونے کے بعد تک ذکر نہیں ہوا اور نہ ہی نئے معاہدے میں ان کا ذکر ہوا۔تاہم، بہت سے مذاکرات کاروں اور سفارت کاروں نے کہا کہ مسٹر ٹرمپ کے انتخاب نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی معیشتوں کی تبدیلی کو تیز کرنے کی ضرورت کے ارد گرد فوری ضرورت کا احساس بھی پیدا کیا ہے، جن میں سے بہت سے اب بھی زیادہ تر جیواشم ایندھن جیسے کوئلے، تیل اور گیس پر منحصر ہیں۔ یہ معاہدہ، جو قانونی طور پر کسی ملک کو پابند نہیں کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر سفارتی عمل کے ذریعے دباؤ کاکام کرتا ہے، دو ہفتوں کی تفرقہ انگیز بحث کے بعد سامنے آیا کہ کس کو ،کون کتنی رقم ادا کرے گا۔
ہندوستانی موقف:
ہندوستان نے اپنی طرف سے گلوبل ساؤتھ کے لیے 300 بلین ڈالر کے نئے موسمیاتی مالیاتی معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ ہندوستان نے مالیاتی پیکج کو اپنائے جانے کے بعد یہ کہتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ یہ بہت کم ہے اور بہت دیر سے آیا ہے۔ہندوستانی وفد کی سربراہ چاندنی رینا نے اس نتیجے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس نتیجے سے مایوسی ہوئی ہے اور اس سے واضح طور پر ترقی یافتہ ممالک کی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔’’مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ یہ دستاویز ایک نظری وہم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ، ہماری رائے میں، ہم سب کو درپیش چیلنج کی وسعت پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔ لہٰذا، ہم اس دستاویز کو اپنانے کی مخالفت کرتے ہیں، ‘‘انہوں نے مزید کہاکہ300 بلین ڈالر ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور ترجیحات کو پورا نہیں کرتے ہیں۔اور ساتھ ہی یہ CBDR (مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریاں) اور ایکوئٹی کے اصول سے مطابقت بھی نہیں رکھتاہے ،اس سے قطعِ نظرکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے جنگ اب اور تیز ہوگئی ہے۔‘‘ رینا نے مزید کہاکہ ہندوستان کی حمایت کرتے ہوئے، نائیجیریا نے کہا کہ $300 بلین کا موسمیاتی مالیاتی پیکیج ایک ’’مذاق‘‘ ہے۔ ملاوی اور بولیویا نے بھی ہندوستان کے موقف کی بھی حمایت کی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)