بیل کی پیٹھ کا زخم شاید بھرا جا چکا ہے: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

جمہوریت کے چار ستونوں میں عدلیہ سب سے مضبوط ستون ہے جہاں سے معاشرے میں انصاف کا نفوذ ہوتا ہے،مگر اسے شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔کوئی بھی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا،سوال کی زد میں نہیں لا سکتا کیونکہ توہین عدالت کے مقدمہ کا خوف بھردیا گیا ہے۔دراصل تقدس جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ خوف میںتبدیل ہوجاتا ہے یا تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ہندوستان میں عدلیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ہندوستان میں حصول انصاف سب سے مشکل عمل بن چکا ہے جس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ کیونکہ انصاف ان کو جلدی ملتا ہے جن کے پاس دولت اور طاقت ہوتی ہے۔عدلیہ کے پاس ہر طرح کے معاملات تصفیہ کے لیے آتے ہیں جن پر فریقین کی سماعت کے بعد وہ فیصلہ کرتی ہے۔ان میں کچھ معاملات ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ کا تعلق اجتماعی ہوتا ہے،ہر دو قسم کے معاملات کا تصفیہ آئین کی روشنی میں ہی ہوتا ہے، اس کے باوجود اگر انصاف غلط انسان کو ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آئین کی غلط تعبیر کی جاتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس غلط تعبیر سے جج صاحبان واقف نہیں ہوتے،اس کے باوجود ایسا ہوتا ہے۔بابری مسجد کا معاملہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ججوں کو جہاں آئین کی کتاب اٹھاکر دیکھنا چاہیے وہاں وہ ’’آدھیاتمکتا‘‘سے کام لیتے ہیں۔ابھی چند دنوں قبل ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہی اس کا انکشاف کیا تھا۔ایسے میں مذہبی معاملات میں کتنی امید کی جائے، یہ ایک اہم مسئلہ بن جاتا ہے۔

Places of Worship(Special Provisions)Act 1991 پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے ستمبر1991میں پارلیمنٹ میں منظور کیا تھا۔ چونکہ اس وقت بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں تھا، اس لیے اس کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا،جس کی رو سے1947سے قبل کے کسی بھی مذہبی مقام کے خلاف نہ تو عدالت میں سنوائی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود عدالتیں ایسی عرضیوں کو سماعت کے لیے تسلیم کر رہی ہیں،سروے کا حکم دے رہی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ عدالتیں اس بات کا رونا روتی ہیں کہ ہمارے پاس قابل تصفیہ مسائل کا انبار ہے جس کی وجہ سے عرضیوں کی لسٹنگ نہیں ہوپاتی اور یہ سچ بھی ہے کہ کسی بھی معاملے کی لسٹنگ میں ہی ایک مدت مدید گزر جاتی ہے، تب جا کر سماعت کے لیے اس کا نمبر آتا ہے، ایسے میں جس دن مذہبی معاملے میں ایک عرضی داخل کی جاتی ہے،اسی دن اس پر سماعت ہوتی ہے اور پھر اسی دن سروے بھی شروع کردیا جاتا ہے۔

کیا عدالتیں اپنے فیصلوں کے عواقب سے واقف نہیں ہیں یا انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ کس طرح کے معاملات میں انہیں کیسا فیصلہ دینا چاہیے۔ سنبھل کی جامع مسجد کے تعلق سے جس طرح سے ضلع عدالت کا فیصلہ آیا اور اس کے بعد جو ہوا اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟حکومت و انتظامیہ تو اس کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور ان سے یہی امید تھی۔محترم جج صاحبان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی قانون کیوں بنایا گیا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں؟ انہیں کسی بھی قانون کی کمزور کڑی کو دیکھنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے انسانی پہلو کے ساتھ ہی ملک کے مفاد کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔۔

10ستمبر 1991کو پارلیمنٹ میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایس بی چوان نے جبPlaces of Worship(Special Provisions)Act 1991 پیش کیا تھا توکہا تھا کہ یہ بل ملک کی اخوت و سالمیت کے لیے پیش کیا گیا ہے، آزادی سے قبل جو آپسی رواداری تھی، اس کو یقینی بنانے کے لیے یہ لایا گیا ہے تاکہ ہماری روایات کو کوئی چوٹ نہ پہنچا سکے۔اس بل کے قانون بن جانے کی صورت میں بھی ملک کی اخوت اور اس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوگیا۔سنبھل میں پولیس اور عوام کے مابین کشاکش میں جس طرح سے جان ومال کا اتلاف ہوا ہے، وہ قابل افسوس ہے۔یہ معاملہ صرف سنبھل کا نہیں ہے،اس سے قبل بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ اور اب اجمیر کی درگاہ کے سلسلے میں عرضیوں کو قابل سماعت تسلیم کرلیا ہے۔

مذکورہ سبھی معاملات میں ملک کی اکثریت کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے افراد اور جماعتیں اقلیتوں کی ان عبادت گاہوں پر قبضہ کرکے انہیں مندر میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی اسی چاہت پر ’’بند‘‘ لگانے کے لیے 1991میں یہ بل پارلیمنٹ میںپیش کیا گیا تھا، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔اس وقت پارلیمنٹ میں اقلیت کے باوجود بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی۔سابق مرکزی وزیر اوما بھارتی نے اس وقت جو باتیں کہی تھیں وہ قابل غور ہیں،انہوں نے اس قانون کو ’’بیل کی پیٹھ پر زخم ‘‘ سے تعبیر کیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس قانون کے ذریعہ ہندوؤں کو ایک نیا زخم دے رہی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں کے اس رویے نے بیل کی پیٹھ کا زخم بھر دیا ہے۔کیونکہ ذرہ برابر کسی کو اس قانون کا پاس و لحاظ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے وکلا کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ اس قانون کے تحت ان کی عرضیاں سماعت کے لیے تسلیم نہیں کی جائیں گی۔

مذکورہ مساجد، عیدگاہ اور درگاہ کے علاوہ ہزاروں ایسے مقامات ہیں جو اکثریتی شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں، اگر عدالتیں ایسے ہی اس طرح کے معاملات کو قابل سماعت گردانتی رہیں تو ملک اس اندھیرے کی نذر ہوجائے گا جہاں اپنا ہی ہاتھ دیکھنے بھر کی روشنی نہیں ہوگی۔ تعصب، نفرت اور دشمنی کے اس اندھے غار میں یہ ملک چلاجائے گاجہاں کسی نوع کی اچھائی اور خوبصورتی کا تصور نہیں جبکہ ہندوستان تو لسانی اور مذہبی تنوع کا گلدستہ ہے۔

جس ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جذبات مجروح ہوجاتے ہیں،جہاں بابری مسجد جیسے بڑے قضیے کا فیصلہ جذبات کی بنیاد پر کردیا جاتا ہے،اسی ملک میں ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں کہتا ہے کہ مسجد میں ’’جے شری رام ‘‘ کا نعرہ لگانے سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوتے ہیں۔24ستمبر2023کو ایک مسجد میں گھس کر کچھ شرپسندوں نے ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگایا تھا،جس کی ایف آئی آر ہوئی اور یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ پہنچا جہاں کورٹ نے یہ تبصرہ کرتے ہوئے اس کیس کو منسوخ کردیا کہ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جے شری رام کہنے سے کسی کے جذبات کیسے مجروح ہوسکتے ہیں۔عدالت نے کیس کی منسوخی کی بنیاد اس درخواست کو بنایا جس کے ذریعہ ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ اس علاقے میں ہندو اور مسلمان دونوں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں،اسی کو بنیاد بنا کر کیس کو منسوخ کردیاکہ ایسے حالات میں جذبات نہیں مجروح ہوسکتے ہیں۔

اس طرح کا فیصلہ دینے والے ججوں کے خلاف معاشرے میں کسی بھی سطح پر کوئی آواز نہیں اٹھتی ہے۔نہ ہی ان کے عمل (فیصلہ) کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،نہ ہی کسی طرح کی جواب دہی طے کی جاتی ہے۔ جس سے معاشرے میں انصاف کی راہیں مسدود ہوتی نظر آرہی ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھنے والے فاضل جج صاحبان بھی انسان ہیں،اس لیے ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں،جس سے معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے،اس لیے ان کی جواب دہی تو طے ہی کی جانی چاہیے۔عدلیہ کو شجر ممنوعہ کا درجہ نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ جس طرح سے جمہوریت کے باقی ستونوں مقننہ،انتظامیہ اور میڈیا کے عمل پر سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے، اسی طرح عدلیہ کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔توہین عدالت کے ڈنڈے سے اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹا جانا صحت مند جمہوریت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS