عبدالماجد نظامی
ہندوستانی میڈیا نے تو اپنا کردار بری طرح مشکوک کرلیا ہے اور اس کی کسی کہانی پر اب یقین نہیں ہوتا، اس لیے فلم سے ہی ایک چھوٹی سے مثال لیتے ہیں کیونکہ اب ہمارے ملک کے افسانہ اور زمینی حقیقت کو پیش کرنے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ویسے بھی ہم ہندوستان کے لوگ فلم اور کرکٹ کے سب سے بڑے شوقین مانے جاتے ہیں، اس لیے بالی ووڈ کی ایک ایسی فلم سے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو زیادہ پرانی بھی نہیں ہے۔ اس کا نام ’’خاکی‘‘ ہے۔ بالی ووڈ کے ملینیم اسٹار اور افسانوی شہرت کی حامل شخصیت امیتابھ بچن نے اس فلم میں ایک ایمان دار، حق پرست اور ہر حال میں قانون کی حفاظت کرنے والے ایک پولیس افسر کا کردار نبھایا ہے۔ اس فلم میں ایک معصوم مسلم کشمیری ڈاکٹر انصاری کو اس کی ایمان داری اور حب الوطنی کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس کا پورا پریوار تباہ کر دیا جاتا ہے اور سیاسی لیڈروں، مافیا اور دیگر عناصر کے ذریعہ تیار کردہ پلاٹ کے تحت میڈیا اور پولیس مشینری کا استعمال کرکے فلم کے مسلم کردار ڈاکٹر انصاری کو دہشت گرد بتا دیا جاتا ہے۔ جیل میں بند اسی ’’دہشت گرد‘‘کو بحفاظت منتقل کرنے کی ذمہ داری اس ایمان دار پولیس افسر اور ان کی ٹیم کو سونپی جاتی ہے جس کا کردار امیتابھ بچن نے نبھایا ہے۔ انصاری کو منتقل کرتے وقت پورے راستہ میں جن مسائل سے پولیس کی ٹیم گزرتی ہے اور سیاست، مافیا اور میڈیا کاجو کردار سامنے آتا ہے، اسی کی پرتوں کو یہ فلم کھولتی ہے۔
اگر قارئین نے اس فلم کو نہیں دیکھا ہے تو اس کو دیکھنا چاہیے۔ اس فلم کی دلچسپ کہانی سے کسی قدر انڈین پولیس، سیاست اور میڈیا و سماج کے کردار کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس قسم کی بے شمار فلمیں، کتابیں، تحقیقات اور دوسرے قسم کے لٹریچر ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ایک عام انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کیوں ہوتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ کتابوں اور تحقیقات کو پڑھنے میں دقت ہوسکتی ہے لیکن اسمارٹ فون اور سستے ڈاٹا کے استعمال سے اچھی فلمیں تو دیکھی ہی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک پولیس کے کردار کا مسئلہ ہے تو اسی فلم ’’خاکی‘‘ میں امیتابھ بچن نے جس کردار کو ادا کیا ہے، اس افسر کے منہ سے نکلا ہوا ایک ڈائیلاگ ہے جس کو اساس بناکر مجھے اپنے ہفتہ واری کالم کے لکھنے کا خیال گزرا۔ وہ ڈائیلاگ یہ ہے کہ ’’اگر پولیس اپنا کام ایمان داری سے کرے تو مندر کے سامنے کوئی ایک چپل تک نہیں چرا سکتا۔‘‘ یہ ڈائیلاگ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی سچ ہے کہ اگر محکمۂ پولیس میں دستور ہند سے مکمل وفاداری دکھانے کا جذبہ پایا جائے اور اپنے ملک کے شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا جنون اس فورس میں موجود رہے تو کبھی بھی سنبھل، دہلی، گجرات اور بھاگلپور جیسے حادثات وقوع پذیر نہ ہوں۔ آپ اگر سنبھل کے اندر ہوئے تشدد کی تفصیلات پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سیاسی اقتدار جن عناصر کے ہاتھ میں ہے، ان میں مسلم اقلیت کے خلاف منافرت اس درجہ کو پہنچ چکی ہے کہ اب ڈھکے چھپے ڈھنگ سے اور اشارے کنایے میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی نہیں کی جاتی ہے بلکہ تمام تر انسانی و سماجی قدروں، دستوری اصولوں اور سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی سطح کے قائدین اس اقلیت مخالف ماحول کو قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ میڈیا، افسران، عدلیہ اور عوام ہر ایک نے یہی سمجھ لیا ہے کہ مسلم اقلیت کے لیے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا، ان کے دین و ایمان، جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا نہ کرنا اور انہیں ہر طریقہ سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہی وقت کا تقاضہ اور سکۂ رائج الوقت ہے۔ سنبھل کا واقعہ ایسا ہے جس میں یہ سارے عناصر پوری شدت اور منافرت کے ساتھ اپنا کردار نبھاتے نظر آتے ہیں۔
نچلی عدالت نے جس انداز میں سنبھل کی صدیوں پرانی تاریخی مسجد کے خلاف درخواست کو قبول کرکے اس کے سروے کا حکم صادر کیا ہے اور پولیس نے جس سرعت کے ساتھ اس کو نافذ کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں دستوری ذمہ داریوں کی پاسبانی کا شعور مفقود ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار سروے کرلینے کے باوجود انہیں تشفی نہیں ہوئی اور دوبارہ جنونی بھیڑ کے ساتھ مل کر پولیس آئی اور ماحول کو اس قدر اشتعال انگیز بنا دیا کہ مسلم نوجوانوں کے احتجاج کو بھی ایک سنگین مسئلہ مان کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا ضروری سمجھا گیا۔ اب تو ملک بھر میں یہ ایک پیٹرن بن گیا ہے۔ ہندوؤں کے تہوار کے مواقع ہوں یا مساجد و عیدگاہ و مزارات کی تاریخی و مذہبی حیثیت کے تعین کا بہانہ ہو، ہر حال میں مسلم اقلیت کو جب تک قتل و خون اور آتش و زندان کے مراحل سے نہیں گزارا جاتا ہے، تب تک اس جنونی بھیڑ کو سکون میسر نہیں ہوتا جس میں اب مسلم دشمنی کی لت ڈال دی گئی ہے۔ اس جنون کی آخری منزل کیا ہوگی، یہ سب جانتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس نے ایک طبقہ کو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ پورے ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دینے کو بھی تیار ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں جس قسم کے اقلیت مخالف اشتعال انگیز بیانات دیے گئے اور میڈیا میں ان پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے ہوتے رہے، ان سے عام انسانوں کا ذہن کتنا متاثر ہوتا ہوگا، یہ واضح ہے۔
سنبھل کا واقعہ ہر گز نہ ہوتا اگر سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے1991 میں بنائے گئے عبادت گاہ ایکٹ کی غلط تشریح کرکے پنڈورا باکس(Pandora’s box) کو نہ کھولا ہوتا۔ اسی طرح پولیس نے اگر اپنی ذمہ داری ہوشمندی اور دستوری اصولوں کی روشنی میں نبھائی ہوتی تو وہ 5 یا 6 معصوم جانیں تلف نہ ہوتیں جو اپنے گھر خاندان کے لیے امیدوں کا مرکز اور زندگی کا سہارا تھیں۔ یقینا پولیس اگر ایمان داری سے اپنا کام کرے تو مندر و مسجد کے سامنے سے کوئی ایک چپل تک نہیں اٹھا سکتا چہ جائیکہ کسی کی زندگی ختم ہوجائے۔ اگر اب بھی ملک کی سالمیت کی فکر ارباب اقتدار اور عدلیہ و پولیس میں باقی ہے تو ضروری ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ مسلم اقلیت کی حفاظت اورآئین کے منصفانہ نفاذ کا انتظام کریں۔ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کی روح کو بحال کرے اور چندر چوڑ کی غلطیوں کو درست کرے۔ آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت اپنے اس بیان پر عمل کرنے کے لیے تمام ہندو تنظیموں کو پابند بنائیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر مسجد اور خانقاہ کے نیچے شیو لنگ تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام بہت آسان ہے اگر ملک سے حقیقی محبت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ملک کی سالمیت کی خاطر ایسا کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، تبھی سنبھل کے متاثرین کو انصاف ملے گا اور آئندہ بھی ملک پر امن رہ کر ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]