وطن عزیز ہندوستان کا آئین1949میں تیارہوا تھا اور اس کانفاذ 1950 میں ہوا تھا، تب سے اب تک اس میں 100 سے زیادہ ترامیم کی جاچکی ہیں اور متعدد قوانین کو منسوخ کیا جاچکا ہے۔جب بھی حکومت ضرورت محسوس کرتی ہے، پارلیمنٹ میں بل منظور کراکے ترمیم کرتی رہتی ہے۔اب بھی بہت سے قوانین ہیں،جن پر سماج کے ایک طبقہ کو اعتراض ہے اورکچھ میں سرکار ترمیم کرنا چاہتی ہے، جس کی مخالفت سماج کا ایک طبقہ کرتاہے۔ان سب کے درمیان آئین کی تمہید میں موجود ’ سوشلسٹ ‘ اور’ سیکولرازم ‘کے الفاظ پر کچھ لوگوں کو اپنے نظریہ اور سوچ کے مطابق اعتراض ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ یہ الفاظ آئین کی تمہید سے ہٹا دیے جائیں۔یہ وہ الفاظ ہیں، جو ابتدامیں نہیں تھے، بعد میں جوڑے گئے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلے ان الفاظ پر اتنا اعتراض نہیں ہوتا تھا،اب کچھ زیادہ ہی اعتراض ہورہا ہے اوراس کی مخالفت کی جارہی ہے۔اس کے خلاف سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایاگیااورآئین کی تمہید میں ’ سوشلسٹ ‘ اور’ سیکولرازم ‘ جیسے الفاظ کوجوڑنے والی 1976کی ترمیم کو چیلنج کیاگیا، لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف اس کے خلاف عرضیوں کو خارج کردیا، بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ان عرضیوں پر نوٹس جاری کرنے یا تفصیل سے سماعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔سپریم کورٹ کا صاف صاف کہناہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ الفاظ بعد میں جوڑے گئے اور آئین پہلے بنایاگیا۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے بحث کے دوران وکیل ہی سے سوال کردیا کہ کیاآپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان سیکولر رہے؟ دراصل سارامعاملہ سوچ اورنظریہ کا ہے۔ مغربی ممالک اورہندوستان میں ان الفاظ کی الگ الگ تشریح کی جاتی ہے۔تبھی تو سپریم کورٹ نے کہا کہ ’سوشلسٹ ‘ کا مطلب ہے، سبھی کیلئے مناسب مواقع ملنے چاہئیں، یعنی مساوات ہو۔یہی حال’ سیکولرازم ‘کا ہے۔ مغربی ممالک میں اس کا جو مفہوم ہے، ہندوستان میں اس کے بالکل برعکس مفہوم ہے۔
غورطلب امرہے کہ اس معاملہ پر بحث کے دوران عرضی گزاروں نے پرزور دلیلیں دیں۔ کسی نے کہا کہ آئین کی تمہید میں ان الفاظ کو جوڑناپارلیمنٹ کو آرٹیکل 368کے تحت ملی آئین کی ترمیم سے متعلق اختیارکے خلاف ہے۔کسی نے کہا کہ اس ایشوپر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی تھی اوریہ آئین ساز اسمبلی میں پیش کیے گئے نظریہ کے برعکس ہے تو کسی نے کہا کہ آئین کی تمہید میں جو تبدیلی ہوئی، وہ اصل آئین کے جذبہ کے خلاف ہے،یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ہوئیں۔ سپریم کورٹ نے سماعت مکمل کرکے 22نومبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا اور25نومبر کو عرضی خارج کردی۔اس طرح سپریم کورٹ نے بھی آئین کی تمہید میں جوڑے گئے ’ سوشلسٹ ‘ اور ’سیکولرازم ‘کے الفاظ کی صحت پر نہ صرف اپنی مہر لگادی، بلکہ بہتوں کا منھ بھی بند کردیا۔اب بھی یہ نہیں کہا جاسکتاکہ ملک میں اس پر بحث بند ہوگی، کیونکہ جو لوگ ان الفاظ کو پسند نہیں کرتے، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ جہاں بھی موقع ملے گا، اس ایشو کو ضرور اٹھائیں گے۔ اس کی گنجائش کورٹ نے یہ کہہ کر فراہم کردی ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین کی تمہید میں ترمیم کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ سے عرضی خارج ہونے سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اس پر قانونی بحث ہوگئی اورسپریم کورٹ کی مہر کے بعد مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ یقینا آئین کی تمہید میں ’سوشلسٹ‘ اور’سیکولرازم ‘جیسے الفاظ کو بہت سوچ سمجھ کر ہی شامل کیا گیا تھا، ورنہ آج ملک کی کچھ اور تصویر ہوتی۔ جو لوگ ان الفاظ کو برداشت یا ہضم نہیں کرپارہے ہیں، وہ پتہ نہیں کیا کیا کرتے اور ملک کو کچھ اور بنادیتے۔جو سپریم کورٹ میں اس کے خلاف عرضی داخل کرسکتے ہیں، وہ کسی بھی حدتک جاسکتے تھے، لیکن کورٹ سے انہیں سخت دھچکالگااوران کی امیدوں پر پانی پھرگیا۔
غورطلب امرہے کہ آئین کی تمہید کے بارے میں سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلہ آئین کی تدوین کے 75سال پورے ہونے پر ملک بھر میں منائے جانے والے یوم آئین کے موقع پر دیا۔ اس سے اس فیصلہ کی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے۔آئین کی تمہید میں ’ سوشلسٹ ‘ اور ’ سیکولرازم ‘کوجوڑنے والی 1976کی ترمیم کی توثیق 48سال بعد سپریم کورٹ نے یوم آئین منانے کے موقع پرکردی۔ اس سے بڑی بات اورکیا ہوگی؟ آئین کی تمہید کے تعلق سے قانونی بحث کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بازگشت یقینابہت دور تک اوردیر تک سنائی دے گی۔ جو لوگ مذکورہ 2اہم اورجامع الفاظ کی مخالفت کررہے تھے، وہ بھی اب اگلا قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔ان کیلئے ان کے خلاف کچھ بولنا اورکرنا آسان نہیں ہوگا۔