ذاکر حسین
بہار اسمبلی انتخاب ہونے میں اب چند مہینے رہ گئے ہیں۔ سبھی پارٹیاں اپنی کیل کانٹے درست کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بہار میں سیاسی پارٹیوں کی سیاسی یاترا شروع ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ بھاگلپور سے اپنی ہندو سوابھیمان یاترانکال چکے ہیں۔ ان کا ہندو سوابھیمان یاترا سیمانچل کے مسلم اکثریتی علاقہ کشن گنج ، ارریا، پورنیہ اور کٹیہار میں جاکر ختم ہوگئی۔
وہیں لالو پرساد یادو کے بیٹے اور سابق نائب وزیراعلی تیجسوی یادو بھی اپنی سیاسی یاتراشروع کرنے والے ہیں۔جیسے جیسے اسمبلی انتخاب کا وقت قریب آئے گا نہ جانے بہار میں کون کون سی یاترائیں شروع ہوںگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آخر مرکزی وزیر گری راج سنگھ کو ہندوسوابھیمان یاترا نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ اب اسمبلی انتخاب کے محض چند مہینے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں ان کی یاترا کوہندو سوابھیمان یاترا کم سیاسی یاترا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ بہار اور مرکز میں ان کی حکومت ہے۔ ان کے ہندو سوابھیمان یاترا نکالنے کا مقصد کیا تھا۔ ہندوؤں کے سوابھیمان کو کس نے ٹھیس پہنچائی اور اگر ٹھیس پہنچائی گئی تو مرکز میں ان کی11 برسوں سے حکومت ہے۔ جبکہ بہار میں جنتادل یو کے ساتھ مل کر 18برسوں سے اقتدار میں شامل ہیں۔ جنہوںنے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ان کے خلاف ان کی حکومت نے کیوں کارروائی نہیں کی اور گری راج سنگھ کو ہندوؤں کی حفاظت کے لیے ہندوسوابھیمان یاترا نکالنی پڑی تو یہ اور بھی سوچنے والی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انتخاب قریب آتا ہے تو ان کی طرف سے مسلمانوں کے سوابھیمان کو ٹھیس پہنچانے کا کام کیا جاتا ہے اور تاثریہ دیا جاتا ہے کہ تمہیں ہندوستان میں اگر رہنا ہے تو دوئم درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ میں چاہے تمہیں جتنا برا بھلا کہوں تمہیں اپنی زبان بند رکھنی ہوگی۔ اگر لب کشائی کروگے تو اس کاانجام برا ہوگا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کو طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے۔ کبھی این آرسی، کبھی سی اے اے، کبھی تین طلاق ، کبھی یکساں سول کوڈ تو کبھی وقف ترمیمی بل لاکر پریشان اور ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیچارہ مسلمان اپنی دفاع میں اگر کچھ لب کشائی کرتا ہے تو اسے پاکستان تک بھیج دینے کی بات کہی جاتی ہے ۔ اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے ۔
حد تو یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی فساد ہواس کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑ دیاجاتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے پولیس کا ننگا ناچ، انہیں گرفتار کرکے جھوٹے مقدمے میں پھنساکر جیلوںمیں ڈال دیاجاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اس سے قبل لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار، پروین توگڑیا، سادھوی رتمبھرا، پرگیہ ٹھاکر، اوما بھارتی، ساکشی مہاراج وغیرہ ہندو وادی لیڈران نے ہندو۔ مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب وہ کہاں ہیں کچھ پتہ نہیں۔ موجودہ وقت میں ہندوتو کا ٹھیکہ اترپردیش کے وزیراعلی آدتیہ ناتھ ، آسام کے وزیراعلی ہیمنٹ وسوسرما ، کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے ڈی راجہ، بہار کے فائر برانڈ لیڈر گری راج سنگھ، اشونی کمار چوبے بھی سابقہ ہندوادی لیڈروںکے نقش قدم پر چل کر اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔ حد تو تب ہوگئی جب بی ایس پی ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی کو بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ رمیش ودھوڑی نے پارلیمنٹ میں ہی آتنک وادی اور نہ جانے کن کن الفاظ کا استعمال کر کے ان کو شرمندہ کیا تھا۔بی جے پی کے کچھ فائر برانڈ لیڈران کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مسلمانوںکے ساتھ کسی طرح کی لین دین نہیں کرنی چاہئے۔ ان سے کسی طرح کی ہمدردی نہیں رکھنی چاہئے ۔ ان کا سماجی بائیکاٹ تک کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ان کی اس طرح کی سوچ سے ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد کمزور ہی ہوگی۔مسلمان اپنے ہی ملک میں دوئم درجہ کا شہری بن کر رہ گیا ہے۔ اپنی سیاسی روٹی سینکنے والے لیڈران آخر مسلمانوںسے اتنا خوفزدہ کیوںہیں۔ انہیں کون ڈرا رہا ہے۔ مسلمان تو ویسے بھی ہر شعبے میں حاشیہ پرہے۔ وہ کسی بھی شعبے میں آگے نہیں۔ انہیںکون ڈرا رہا ہے ۔ بات سمجھ سے دور ہے ۔ کیونکہ صدرجمہوریہ آپ کا، وزیراعظم آپ کا، تینوں فوج کے سربراہان آپ کے، ممبر پارلیمنٹ سے لے کر سبھی ریاستوںکے اسمبلیوں میں اکثریت آپ کی۔ کشمیر چھوڑ کر سبھی ریاستوںکے وزراء اعلی آپ کے، ایک دو ریاستوںکو چھوڑ کر سبھی ریاستوںکے گورنر آپ کے، سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالت تک ججیز سے لے کر وکلاکی تعداد سب سے زیادہ آپ کی، فوج، پولیس میں اکثریت آپ کی۔ مسلمان توکہیں نظر نہیں آتا پھر بھی ان لیڈران کو مسلمانوںسے ڈر لگتا ہے۔لیکن حقیقت ہے کہ آج بھی ہندوستان کے 90فیصد ہندو بھائیوں کے خیالات ان چند مٹھی بھر ہندوتو کے ٹھیکیداروں سے میل نہیں کھاتے۔ وہ آج بھی مسلمانوںکے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں مسلمانوںسے ڈر نہیں لگتا۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں کے لوگ امن پسند ہیں ۔ چند ہندووادی رہنماؤں کی بیان بازی سے ان کی سیاست تو چمک سکتی ہے لیکن بہت دیر تک ان کی سیاسی چمک باقی نہیں رہ سکتی۔ ہندوستان کی ترقی اور سالمیت کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سبھی کو متحد ہوکر رہنا ہوگا۔ سبھی کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہوگاتب ہی ہمارا ملک پھر سے سونے کی چڑیا کہلائے گا۔ہمارے وزیراعظم نریندر مودی بھی بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان ’وسو گرو‘بہت جلد بنے گا ۔ ان کی سوچ کی ہمیں تائید کرنی چاہئے۔ مسلمانوںکو چاہئے کہ چند مٹھی بھر زہر اگلنے والے ہندوتو کے ٹھیکیداروں کی باتوںپردھیان دینے کے بجائے اپنی توانائی تعلیم، روزگار اور تجارت پر لگائیں۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم جس شعبہ میں رہیں اوروں سے زیادہ محنت کریں، ان سے بہتر کام کریں ۔ ان کی بیان بازی میں الجھ کر اپنی توانائی صرف نہ کریں۔ ورنہ آپ ان بیان بازیوں میں الجھ کر اپنامقصد ہی نہ بھول جائیں گے۔ان کی بیان بازی سے گریز کریںاور کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے ہمارا ملک بدنام ہو اور ہمیں پشیمانی کا سامنا کرناپڑے۔