محمد حنیف خان
کوئی بھی چیز فی نفسہ اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے،جس کے معاشرے پر مثبت یا منفی اثرات مرتسم ہوتے ہیں۔اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ کسی بھی شئے کے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں۔سوشل میڈیا ان نئی ایجادات میں سے ہے جس نے دنیا کو عالمی گاؤں(گلوبل ولیج)بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جتنی بڑی ہماری حقیقی دنیا ہے، اس سے کہیں بڑی ورچوئل ہے۔ہمیں حقیقی دنیا میں کسی بھی شئے کے حصول یا وہاںتک رسائی میں مشکلات آسکتی ہیں مگر ورچوئل دنیا ایسی ہے کہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی موجود رہ سکتے ہیں اور وہاں ہونے والے پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جس کی وجہ سے آزادیٔ اظہار خیال کو ایک نئی جست ملی ہے۔کوئی بھی شخص کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔سوشل میڈیا سے قبل دنیا میں ایک سب سے بڑا مسئلہ ’’ آزادیٔ اظہار رائے ‘‘تھا۔اسی لیے سوشل میڈیا نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلی۔لیکن اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ہی اس کے منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ان لوگوں کا کریہہ چہرہ بھی سامنے آیا ہے جو اپنے مفادات کے لیے دنیا کو بد صورت بنا رہے ہیں جس کی بہت سی صورتیں ہیں۔اس کی سب سے پہلی شکل تو یہی ہے کہ ’’آزادیٔ اظہار رائے‘‘کا یہاں پر گلا گھونٹا جانے لگا۔ متعلقہ کمپنیاں مذہبی،لسانی اور نسلی بنیادوں پر یہ کام کر رہی ہیں جبکہ وہ حوالہ بھی اسی کا دے رہی ہیں۔دوسرا سب سے اہم مسئلہ بچوں کا ہے۔
’’سوشل میڈیا ہمارے بچوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے اور میں اس سے کافی فکر مندہوں ‘‘، آسٹریلیا کے وزیراعظم اینتھونی البانیز نے ان الفاظ کے ساتھ سوشل میڈیا سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کیاہے۔جو قومیں اپنے بچوں کو بہتر دنیا دے کر جانا چاہتی ہیں، وہ ایسے ہی فکر مند رہتی ہیں۔ البانیز نے مزید کہا کہ میں نے ہزاروں والدین، دادا، دادی اور دیگر سرپرستوں سے اس سلسلے میں بات کی ہے، وہ بھی میری طرح بچوں کی آن لائن حفاظت کے بارے میں پریشان ہیں۔
بچے/نئی پود ہی اس دنیا کا مستقبل ہیں۔ہم ان کی تربیت جن خطوط پر کریں گے اور جس طرح سے ان کی تربیت کریں گے،مستقبل کی دنیا اسی طرح ظہور پذیر ہوگی۔ والدین کبھی بھی نہیں چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی غلط پرورش کریں یا ان کے بچے بگڑ جائیں،وہ پوری زندگی اسی تگ و دو میں صرف کردیتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ اخلاقی قدروں کے حامل ہوںاور وہ ایک اچھے انسان بن سکیں،مگر دنیا کا ایک ایسا سسٹم بن چکا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرپاتے ہیں۔جدید دنیا کے تربیتی نظام میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوچکا ہے، اس سے لوگ اپنے بچوں کو مستقبل بیں بھی بنا رہے ہیں اور اسی سے بچوں میں غیراخلاقی رویے بھی پیدا ہو رہے ہیں۔غیر اخلاقی رویے میں سب سے بڑا ہاتھ سوشل میڈیا کمپنیوں کا ہے جس کا آغاز انہوں نے ’’ اظہار رائے کی آزادی ‘‘کے لیے کیا تھا، دھیرے دھیرے وہ پس پشت چلا گیا اور آج اس کا پیش نامہ کاروبار ہے،جس کی وجہ سے انہوں نے غیر اخلاقی مواد کو بھی سوشل میڈیا کا حصہ بنادیا ہے تاکہ ’’ریچ‘‘ میں اضافہ کرسکیں۔
یہ دنیا بغیر بچوں کے نہیں ہوسکتی ہے،معاشرے میں بیک وقت تین نسلیں باپ، بیٹا اور پوتا(بشمول خواتین) عام طور پر ہوتی ہیں۔ان کمپنیوں نے ہر ایک کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کی عمر،مزاج اور نفسیات کے مطابق مواد رکھا ہے تاکہ ہر عمر کے لوگوں کی دلچسپی کا یہاں سامان مہیا رہے۔لیکن اس میں سب سے بڑا نقصان جو ہوا ہے وہ یہ کہ کس مواد تک کس کی رسائی ہوگی، اس کا کوئی نظام نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ انٹر نیٹ کی دنیا میں ایسے سافٹ ویئر ڈیولپ نہیں کیے گئے جو بچوں کا ہر طرح سے تحفظ کرسکیں۔ بہت سے ایپ ایسے ہیں جن کا استعمال کرکے بچوں کو غیر اخلاقی یا بڑوں کے لیے تیار مواد سے بچایا جاسکتا ہے۔لیکن سوشل میڈیا کمپنیوں نے اس کی ذمہ داری خود نہ لے کر صارفین پر ڈال دی کہ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو ان سافٹ ویئر یا ایپس کا استعمال کرکے اس مواد تک رسائی بند کردیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسئلہ تو اس وقت آتا ہے جب بچے سوشل میڈیا پر آجاتے ہیں اور اس کا تعلق صرف مواد سے ہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ کس عمر کے لوگوں کو سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے جس سے ان کی زندگی پر منفی اثرات کم سے کم پڑیں ؟
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر متعدد مضامین اور رپورٹس شائع ہوچکی ہیں،لیکن خاص طور پر بچوں پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں، اس پر کوئی ایسی جامع رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے جو حکومتوں کے رویوں میں تبدیلی کا سبب بن سکے۔لیکن اس کے منفی پہلوؤں سے دنیا بالکل آگاہ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔متعدد ممالک میں اس سے متعلق قوانین بھی بنائے جاچکے ہیں لیکن ان کا مسئلہ بچوں کے تحفظ سے رہا ہے،یا پھر اس کے مواد سے۔آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں جمعرات کو ایک بل پیش کیا گیا،جس میں 16برس کی عمر سے کم بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔17صفحات کا یہ بل آئندہ ہفتے سینیٹ میں پیش ہوگا۔کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ بل اس طرح کی پابندی کے لیے ایک فریم ورک مہیا کرائے گا۔در اصل اس بل میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو سیدھے طور پر جواب دہ بنایا گیا ہے یعنی آسٹریلیا نے منبع و مصدر پر ہی قدغن عائد کی ہے تاکہ معاشرے کو اس کے ’’فلو‘‘سے بچایا جاسکے۔ مجوزہ قانون کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عمر کی حد کی خلاف ورزی پر سزا دی جائے گی۔البانیز نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہ ذمہ داری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہوگی کہ وہ بچوں کی رسائی کو روکنے کے لیے معقول اقدام کریں،اس کی ذمہ داری والدین اور بچوں پر نہیں ہوگی۔
دراصل کورونا وائرس کے دور میں ’’اسکرین کے وقت‘‘ میں ایک دم سے اضافہ ہوگیا تھا۔اسکول بھی آن لائن ہوگئے تھے جس کی وجہ سے بچے بے محابہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے استعمال پر مجبور ہوگئے تھے،جس کا نقصان یہ ہواکہ بچے اسکرین کا شکار ہوگئے۔چونکہ وہ بے شعور بچے تھے، اس لیے ان کی رسائی سوشل میڈیا کے ایسے مواد تک بھی ہوگئی جس نے باشعور معاشرے میں خطرے کی گھنٹی بجادی اور ہر طرف سے اس حوالے سے فکرمندیوں کا اظہار کیا جانے لگا۔
ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا،حالانکہ ہندوستان میں sharenting(یہ لفظ پیرینٹنگ اور شیئرنگ سے ملا کر بنایاگیا ہے)کا چلن زیادہ ہے۔یہ والدین اپنے بچوں کی تصاویر اور ویڈیو اور دیگر معلومات سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی مقبولیت کو واضح کرتا ہے۔اسی طرح دونوں کے ایک موبائل کے استعمال کو بھی بیان کرتا ہے۔ہندوستان میں ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023(ڈی پی ڈی پی اے)نافذ ہے،جس کی دفعہ 9 میں 18برس سے کم عمر کے بچوںکی تفصیلات کے حوالے سے تین شرطیں نافذ کی گئی ہیں۔(اول)بچوں کی تفصیلات کے حوالے والدین کی رضامندی حاصل کرنی ہوگی۔ (دوم)بچوں کی ذاتی تفصیلات کے استعمال میں بچوں کی فلاح و بہبود کو اولیت دی جائے گی۔(سوم)بچوں پر نظر رکھنے،ان کی نگرانی اور مقصد کے تحت اشتہار پر پابندی ہے۔لیکن یہ تینوں ضوابط بچوں کے اخلاقی رویوں میں آنے والی تبدیلیوں کو ذرا بھی متاثر نہیں کرتے ہیں۔کیونکہ جب بچے سوشل میڈیا پر رہیں گے اور ہر طرح کے مواد تک ان کی رسائی ہوگی تو ایک ایسی دنیا وجود میں آئے گی جس میں تشدد،نفرت اور تعصب کے ساتھ ہی دیگر منفی رویے ان کی زندگی کا حصہ ہوں گے۔
آج ہندوستان میں جو معاشرہ وجود میں آیا ہے،اس میں نفرت و تعصب کی لہر بہہ رہی ہے۔چھوٹے چھوٹے بچے مذہبی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کے قریب ہوتے ہیں یا پھر ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ہندوستان کا ایسا معاشرہ بنانے میں سب سے منفی کردار سوشل میڈیا نے ادا کیا ہے۔نفرت پھیلانے والوں نے اس پلیٹ فارم کا استعمال ہی اس لیے کیا تاکہ وہ ایک ایسی نسل تیار کرسکیں جو بچپن سے متعصب اور متشدد ہو، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایک ساتھ رہنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے بچے اب ایک دوسرے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ نے 2023میںاسکولی بچوں میں سوشل میڈیا کی لت اور اس کے منفی اثرات کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا تک پہنچ کے لیے کم از کم 21برس کے عمر کی تحدید کرے۔اگر دنیا اور بالخصوص ہندوستان کو نفرت اور تعصب سے بچانا ہے، محبت و اخوت کو اس کی جڑوں میں شامل رکھنا ہے تو حکومت کو آسٹریلیا کی طرح قانون بنانا چاہیے لیکن تعزیری دفعات میں والدین کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ محبت اور لاڈ و پیار میں وہ بھی انہیں بگاڑ نہ سکیں۔اس سے معاشرے پر کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں مگر تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔