مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات مکمل ہو چکے ہیں اور اب تمام نظریں 23 نومبر کو آنے والے نتائج پر مرکوز ہیں۔ رانچی سے ممبئی تک،ہر سیاسی جماعت اور اتحاد اپنی جیت کا دعویٰ کر رہا ہے،لیکن ان انتخابات میں کامیابی کس کا مقدر بنے گی اور شکست کس کے حصے میں آئے گی،یہ کچھ دنوں میں ہی واضح ہو گا۔ تاہم ان انتخابات نے ہندوستانی سیاست میں ایک نیا رنگ بھرا ہے،جہاں نعرے بازی،فرقہ واریت اور سیاسی رقابتیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش نے ایک نیا منظرنامہ پیش کیا ہے۔
عوام یہ بخوبی محسوس کر رہے ہیں کہ بی جے پی کی انتخابی مہم میں نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی طاقت دکھا کر الگ الگ سیاسی چھاپ چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا نعرہ ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ نے جہاں عوام میں ہلچل مچائی‘وہیں وزیراعظم نریندر مودی نے اس کے جواب میں ’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ جیسا زہر آلود سیاسی بیانیہ پیش کر کے ایک نیا رخ اختیار کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا سیاسی انداز نریندر مودی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ اور بے باک ہے۔ ان کا بدنام نعرہ ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ نہ صرف انتخابی مہم کا حصہ بن چکا ہے بلکہ یہ بی جے پی کے اندر بھی ایک نئی سیاسی فضا پیدا کر چکا ہے۔ یہ نعرہ صرف ایک سیاسی حربہ نہیں، بلکہ ایک کھلا اعلان جنگ بن چکا ہے،جس میں مخالفین کو دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی سیاست کے خلاف چلیں گے تو ان کا انجام برا ہو گا۔
یہ مودی کیلئے پریشانی کا باعث تھا کیونکہ اس نعرے کے ذریعے یوگی آدتیہ ناتھ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوااور ان کے ایسے بیانات سیاسی میدان میں ایک نئے جذبے کا باعث بنے۔ مودی کی مشکل یہ تھی کہ وہ اس نعرے سے خود کو الگ نہیں کر سکے،لیکن مہاراشٹر میں انہیں کچھ حد تک موقع ملا۔ وہاں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے ایک اتحادی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (اجیت پوار گروپ) نے واضح طور پر کہا کہ یہاں یہ نعرہ نہیں چلے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مہاراشٹر کا سیکولر کردار یہ نعرہ برداشت نہیں کرے گا اور اس سے یہاں سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ بی جے پی کی مخالفت کے باوجود اجیت پوار نے نواب ملک کو ٹکٹ دے کر نہ صرف اپنے نظریے کی تائید کی،بلکہ بی جے پی کی سوچ کو بھی رد کیا۔ اس کے بعد مودی نے اپنا نیا نعرہ ’’ہم ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ دیا۔نریندر مودی کا یہ نعرہ اگرچہ نسبتاً نرم محسوس ہوتا ہے‘مگر اس میں بھی ایک خاص زہر اور تیزی ہے،جس کا مقصد نہ صرف سیاسی حریفوں کو چیلنج کرنا ہے بلکہ اپنے حامیوں میں ایک جذباتی ردعمل پیدا کرنا ہے۔ مودی کی تقریریں ہمیشہ حکمت عملی کے تحت تیار کی جاتی ہیں،جہاں وہ اپنے مخالفین کو مختلف ایشوز پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنے حامیوں کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کے بیانات میں ایک خاص توانائی اور چمک ہوتی ہے،جو عوام میں بی جے پی کی پوزیشن کو مستحکم کرتی ہے۔انتخابی مہم کے دوران مودی اور یوگی کے یہ نعرے دراصل بی جے پی کے اندر کی سیاسی کشمکش کو اجاگر کرتے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کے نعرے کی شدت وزیر اعظم مودی کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت میں یہ سوالات اب اٹھ رہے ہیں کہ کیا یوگی کی بڑھتی ہوئی طاقت پارٹی کی وفاقی سیاست میں کوئی تنازع پیدا کرے گی؟ بی جے پی کے حامیوں میں ان دونوں رہنماؤں کے بیانات کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ جہاں ایک طرف مودی کا نرم مگر زیرک پیغام عوام کو جذباتی طور پر متحرک کرتا ہے،وہیں یوگی کا سخت لہجہ ایک طاقتور سیاسی پیغام فراہم کرتا ہے۔اب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ ان نعروں اور بیانیوں کا انتخابی نتائج پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا یہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کریں گے،یا پھر یہ داخلی تنازعات اور نعرے بازی پارٹی کیلئے مشکلات کا سبب بنیں گے؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہوتا جا رہا ہے کہ مودی اور یوگی کے درمیان لفظوں کی جنگ کس سمت میں جائے گی۔ کیا یہ لفظوں کی جنگ بی جے پی کے حق میں جائے گی یا پھر پارٹی کی داخلی سیاست میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی؟مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات نے ہندوستانی سیاست میں ایک نیا رنگ بھرا ہے،جس میں نعرے بازی اور فرقہ واریت کے واضح پہلو کے ساتھ ہی وزیراعظم نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان سیاسی مقابلہ ایک نیا سیاسی منظرنامہ تخلیق کر رہا ہے،جس کا اثر نہ صرف بی جے پی پر،بلکہ پورے سیاسی ماحول پر مرتب ہو گا۔