ایم اے کنول جعفری
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی دہلی اور شمالی ہند میں رہائش پذیرافراد سردی کے ستم کے ساتھ فضائی آلودگی کے قہر کا سامنا کرنے پر مجبورہیں۔مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ(سی پی سی بی) کے مطابق19نومبرکی صبح 7بجے دہلی کے کئی علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس(AQI) 500 سے اُوپر ریکارڈ کیا گیا۔دہلی کا اوسط اے کیو آئی494رہا،جو اس موسم کا سب سے زیادہ ہے۔دہلی میں خطرناک آلودگی کے مدنظر12ویں جماعت تک کی کلاسز آن لائن چلانے کا فیصلہ لیاگیا۔ڈی یو ،جے این یو اور جامعہ کے کالجوں میں 4روز تک کلاسیںورچوئل موڈ پر رکھی گئی ہیں۔ بڑھتی آلودگی کے پیش نظر کمیشن فار ایئر کوالٹی مینجمنٹ(CAQM) نے 18نومبر سے دہلی اور این سی آر میں ترمیم شدہ گریڈڈ ریسپانس ایکشن پلان (GRPA)6 کے چوتھے مرحلے کو نافذ کر دیا ہے۔ بچوں، بوڑھوں، سانس اور دل کے مریضوں اور دائمی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔نوئیڈا آلودگی اور اسموگ کے سبب حد نگاہ کم ہونے سے ایسٹرن پیریفرل ایکسپریس وے پر کئی حادثات ہوئے۔اُدھر عدالت عظمیٰ نے اے کیو آئی 450سے کم ہونے کے باوجود عدالتی حکم کے بغیر گریپ4-نہیں ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ پریشانی کے مدنظر106اضافی کلسٹر بسیں چلانے کے علاوہ میٹرو کے 60ٹرپس بڑھانے کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔سی اے کیو ایم نے ہریانہ،اُترپردیش اور راجستھان سے آنے والی بسوں کی دہلی آمد پر پابندی عائدکی ہے۔ سرکاری دفاتر کے اوقات کاربھی بدلے گئے ہیں۔ مرکزی حکومت کے دفاتر صبح 9بجے سے شام 5:30 بجے تک،دہلی حکومت کے دفاتر صبح10بجے سے شام6:30بجے تک اور ایم سی ڈی کے دفاتر صبح 8:30 بجے سے شام5بجے تک کھلیں گے۔
12نومبر کودہلی کے29علاقے خطرناک زمرے میں تھے۔دہلی میں اے کیو آئی ایک روز قبل سے 18پوائنٹس کم یعنی334نوٹ کیا گیا،لیکن اسی روز صبح 7 بجے جہانگیر پوری کااے کیو آئی سب سے زیادہ 999ریکارڈہوا۔ باقی تمام تر علاقوں میں اے کیو آئی 300سے اُوپر پایا گیا۔8 علاقوں میں اے کیوآئی 200 سے 300 کے درمیان خراب زمرے میں تھا۔ قومی دارالخلافہ دہلی کے آس پاس کے شہروں میں بھی اسی طرح کا اُتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ ایئر کوالٹی وارننگ سسٹم کا کہنا ہے کہ آگامی ہفتے کے دوران ہوا کی رفتار8 سے 10 کلومیٹر فی گھنٹہ سے نیچے رہے گی۔ موسم کا مزاج ناموافق رہنے پر اے کیو آئی300سے اُوپر رہنے کا امکان ہے۔ دہلی اور این سی آر میں سردی کی آمد اور کہرا چھانے سے ہلکی ٹھنڈ کا احساس ہونے لگا ہے۔ دہلی اور این سی آر ہی فضائی آلودگی کے شکار نہیں ہیں، دنیا کے کئی دیگر شہروں میں بھی ایسی ہی صورت حال کے باعث لوگوں کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔دنیا کے121 ممالک کے آلودہ شہروں میں دہلی،کولکاتا اور ممبئی شامل ہیں۔سوئس فرم آئی کیو ایئر کی لائیو رینکنگ میں اے کیو آئی 515کے ساتھ دہلی سب سے زیادہ آلودہ ہے۔اس کے بعد ممبئی اے کیو آئی158اور کولکاتا اے کیو آئی136کانمبر آتا ہے۔گلوبل فضائی آلودگی کی بات کریں تو آئی کیو ایئر 2024 کی لائیو رینکنگ میں پاکستان کا شہر لاہورایئر کوالٹی انڈیکس(اے کیو آئی) کی سطح790 کے ساتھ پہلے مقام پر ہے۔دہلی اے کیو آئی کی سطح 406 کے ساتھ دوسرے، ڈھاکہ(بنگلہ دیش)اے کیو آئی کی سطح204 کے ساتھ تیسرے، ہنوئی (ویتنام) اے کیو آئی کی سطح182کے ساتھ چوتھے، کولکاتا اے کیو آئی کی سطح 181کے ساتھ پانچویں،کٹھمنڈو اے کیو آئی کی سطح 172 کے ساتھ چھٹویں، دبئی(متحدہ عرب امارات) اے کیو آئی کی سطح 169 کے ساتھ ساتویں، جکارتہ (انڈونیشیا ) اے کیو آئی کی سطح163 کے ساتھ آٹھویں، ساراجیوو(بوسنیا ہرزوگوونا) اے کیو آئی کی سطح 159 کے ساتھ نویں اور کراچی(پاکستان) اے کیو آئی کی سطح 156 کے ساتھ 10یں مقام پر ہے۔گلوبل شہروں کی ایئر کوالٹی انڈیکس رینکنگ2024 میں ہندوستان کے سب سے زیادہ10 آلودہ شہروںمیں دہلی اے کیو آئی 418کے ساتھ پہلے مقام پر ہے۔حاجی پور(بہار) اے کیو آئی417کے ساتھ دوسرے،بھیوانی(ہریانہ) اے کیو آئی 375کے ساتھ تیسرے،چنڈی گڑھ(چنڈی گڑھ) اے کیو آئی372کے ساتھ چوتھے،غازی آباد(اتر پردیش) اے کیو آئی350کے ساتھ پانچویں، بھواڑی (راجستھان) اے کیو آئی 350کے ساتھ چھٹویں،گریٹر نوئیڈا(اتر پردیش) اے کیو آئی 364کے ساتھ ساتویں، بدّی(ہماچل پردیش) اے کیو آئی 344کے ساتھ آٹھویں، سونی پت (ہریانہ) اے کیو آئی338کے ساتھ نویں اور پورنیا(بہار) اے کیو آئی 331کے ساتھ 10 ویں مقام پرہیں۔
عالمی ادارے صحت کے مطابق فضائی آلودگی سے دنیا میں ہر سال 70لاکھ افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس سے دمہ، کینسر، فالج اور پھیپھڑوں کی بیماری بڑھنے، ذیابیطس کی سطح مزید خراب ہونے، بچوں کی نشوونما متاثر ہونے اور دماغی صحت کے مسائل بڑھنے کے امکان ہیں۔ ’ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ‘ (ڈبلیو اے کیو آر) کے مطابق ہندوستان میں سالانہ اوسطPM2.5کی تعداد 53.3µg/m3 سے بڑھ کر g/m3 54.4µ ہو گئی ہے۔ دہلی میں آلودگی کے لیے ہریانہ، پنجاب اور مغربی اُترپردیش کے کسانوں کے ذریعہ پرالی جلانے کو ذمہ دار مانا جاتا ہے، جب کہ فضائی آلودگی میں پرالی جلانے کا کردار صرف آٹے میں نمک جیسا ہے۔دہلی میں1.15کروڑ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ کیا زہریلی ہواکے لیے سڑکوں پر ہمہ وقت دوڑتی گاڑیوں کو آلودگی کے زمرے سے الگ رکھا جاسکتا ہے؟ اکثرپرالی سے اُٹھتے دھویں کی بات کی جاتی ہے۔کیا ربر اور پلاسٹک کی چیزیں بنانے والے کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں کم ذمہ دار ہے؟ کیا قرب و جوار کے اینٹ بھٹوں کے دھویں کو الگ کیا جاسکتا ہے ؟ گاڑیوں کے دھویں میں PM2.5 اور PM10کے ذرات ہوتے ہیں۔ مکمل آلودگی کی 40فیصد فضائی آلودگی گاڑیوں کی دین ہے۔ دھویں سے نکلنے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوژون،پیروکسی سائل نائیٹریٹ، غیر مستحکم نامیاتی مرکبات اور آلودہ ذرات ماحول کے ساتھ انسانوں، نباتات اور حیوانات کو متاثر کرتے ہیں۔ دہلی میں بڑے پیمانے پر تعمیر عمارتیں، سڑکیں،کھدائی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی آلودگی کے اسباب ہیں۔ این سی آر میں موجود فیکٹریاں، صنعتیں، کوئلے کے پاور پلانٹس دہلی کو آلودہ کرنے کے اہم ذرائع ہیں۔دہلی پران کی گرفت مضبوط ہونے سے ایئر کوالٹی انڈیکس انتہائی ناقص زمرے میں پہنچ گیا۔ گھنے کہرے کی بنا پر مرئیات بھی خاصی کم ہوگئی۔ ہر برس سردی میں فضائی آلودگی کیوں بڑھتی ہے؟
دراصل، یہ موسم سے متعلق ایک رجحان ہے۔ اس رجحان میں سرد ہوازمین کی طرف اور گرم ہوا اُوپر کی طرف رہتی ہے۔چوں کہ یہ تہہ آلودگی کے ذرات کو اُوپر کی جانب نہیں پھیلنے دیتی،اس لیے وہ زمین کے قرب میں جمع ہوجاتے ہیں۔سرد موسم میں دہلی میں یہ اثر اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ہوا کی رفتار اور درجۂ حرارت کم ہونے کے باعث گاڑیوں،صنعتوں اور دیگر ذرائع سے خارج ہونے والی آلودگی فضا میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس سے ہوا کا معیار خراب ہو تا ہے۔دہلی میں دھوپ نکلنے کے ساتھ آلودگی کے کیمیائی عمل کی بنا پر ’ فوٹو کیمیکل اسموگ‘ پیدا ہوتا ہے۔ اسموگ ہی وہ دھند ہے،جو شہریوں کے چاروں طرف کے ماحول کو زہریلی پرت سے ڈھک لیتی ہے۔اسی سے دھویں کے اہم مصنوعات اوژون اور پیروکسی سائل نائیٹریٹ وجود میں آتے ہیں۔دہلی اور این سی آر کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے صرف پرالی پر پابندی کافی نہیں ہے۔دہلی کو ہوا میں گھلتے زہر سے محفوظ رکھنے کے لیے تعمیراتی کاموں کے لیے سخت قوانین،،صنعتی آلودگی پر قابو، کھلے میںکوڑاکرکٹ جلانے پر مکمل پابندی کے علاوہ ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرانک گاڑیوں کے چلن کو فروغ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ دہلی اور ملک کا مستقبل اِسی ہوا میں ہے،جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہوا کو صاف رکھا جائے۔یہ تبھی ممکن ہے،جب سرکار، سماجی ادارے اور عوام مل کر ہوا کو صاف رکھنے کا بیڑا اُٹھائیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]