انجینئر خالد رشید (علیگ)
8نومبر 2024کا دن آزاد ہندوستان میں ایک تاریخی دن کے طور پر یاد کیا جائے گا، صرف اس لیے نہیں کہ اس دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی بلکہ اس لیے کہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے نہایت مشکل وقت میں ان طاقتوں کے سامنے سر نگوں ہونے سے انکار کر دیا جو اکثریت کے زوم میں اقلیتوں کے حقوق کو پیروں تلے روند دینا چاہتی تھیں۔ عدالت عظمیٰ نے دستور کی دفعہ30 کی وضاحت کرکے مستقبل میں اقلیتی اداروں کے قیام، موجودہ اداروں کے تحفظ کے لیے ایک ایسی نظیر قائم کر دی جو اقلیتی اداروں کے قیام اور بقاء کے لیے یقینا ایک مشعل راہ ثابت ہوگی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ جو اس لیے پیچیدہ ہو گیا تھا کیونکہ ملک کی کچھ سیاسی قوتیں اس کو مسلمانوں کا مسئلہ گردان کر اس کی مخالفت کرنا اپنا سیاسی فریضہ سمجھنے لگی تھیں جبکہ یہ ایک آئینی مسئلہ تھا، اس لیے سپریم کورٹ کو آئین میں موجود دفعات کی تشریح کرنی تھی جن میں واضح الفاظ میں یہ گارنٹی موجود ہے کہ اقلیتوں کو اپنی پسند کے ادارے بنانے اور ان کو چلانے کا حق حاصل ہے۔
اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید کی قیادت میں ان کے رفقاء کے ذریعہ قائم کیے گئے اس مدرسہ کی توسیع کا نام ہے جو انہوں نے مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند کے نام سے قائم کیا جو ان کی زندگی میں ہی محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بنا اور ان کی رحلت کے بعد1920میں ایک مستقل یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ ان تینوں ناموں میں لفظ مسلم یا محمڈن کا ہونا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ ادارہ مسلمانوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سرسید نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ میں ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتا ہوں جس کے طلبا کے ایک ہاتھ میں سائنس کی ڈگری، دوسرے ہاتھ میں قرآن کریم اور سر پر کلمۂ طیبہ کا تاج ہو۔ حالانکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے جو اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ یہ مسلمانوں کا ادارہ ہے لیکن یہ موجودہ تنازع1967 میں شروع ہوا جب عزیز پاشا مقدمے میں کورٹ نے ایک عجیب و غریب فیصلہ صادر کر دیا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کیونکہ پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت وجود میں آئی ہے، اس لیے یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کے اس انوکھے فیصلے نے پوری قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا، تمام مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ یونیورسٹی کے طلبا، سابق طلبا،دانشور اور سیاسی رہنماؤں، جن کو اس عظیم ادارے کو کھو دینے کا خوف تھا، ان سب نے مل کر 12 سال مسلسل احتجاج کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں طالب علم تھا۔ یوپی میں اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے۔
ہم نے یونین کے پلیٹ فارم سے اعلان کیا کہ یونیورسٹی بند کرا دی جائے اور سب طلبااپنے اپنے حلقوں میں جاکر کانگریس کے امیدواروں کو ہرانے کی مہم میں لگ جائیں لہٰذا ہم بھی بجنور چلے گئے اور کانگریس کے امیدوار کی مخالفت کی۔ کانگریس کو مسلمانوں کی بات ماننی پڑی اور 1981میں پارلیمنٹ میں ایک بل لاکر حکومت نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ دے دیا لیکن2005میں جب یونیورسٹی نے 50فیصد مسلمانوں کو داخلہ دے کر1981 کے ایکٹ کو نافذ کرنا چاہا تو پھر سپریم کورٹ میں ایک اپیل داخل کر کے اقلیتی کردار کو چیلنج کیا گیا۔ عدالت نے عزیز پاشا کے فیصلہ کو درست قرار دیا اور1981کی آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا، عدالت نے سنوائی کی اور بالآخر8نومبر 2024کو سات ججوں کی بینچ نے عزیز پاشا فیصلہ کو مسترد کیا اوریہ واضح کردیا کہ عزیر پاشا مقدمے کا فیصلہ غلط بنیادوں پر کیا گیا۔ وہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے وہ پیمانہ بھی بنا دیا جس کی بنیاد پر کسی ادارے کو اقلیتی ادارہ کہا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بہتر تو یہی ہوتا کہ عدالت یہ بھی کہہ دیتی کہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجاتا۔
کچھ لوگوں کی رائے میں عدالت کی مجبوری تھی کہ وہ ایک نئی بینچ بنا دے جو موجودہ فیصلے کی روشنی میں یہ طے کرے کہ اے ایم یو اس پیمانے پہ پوری اترتی ہے یا نہیں جو اس وقت کے چیف جسٹس چندر چوڑ کی بینچ نے قائم کردی ہے۔ بہرحال تذبذب اور بے یقینی کی وہ برف جو گزشتہ57سالوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خیرخواہوں کے ذہنوں پر جمی تھی، وہ اس فیصلے سے پگھلنا شروع ہو گئی ہے اور اس بات میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
لیکن یہ سمجھ لینا بھی نادانی ہی ہوگی کہ وہ فرقہ پرست طاقتیں جو اے ایم یو کے اقلیتی کردار اور ملک کے آئین میں موجود ان دفعات کی مخالف ہیں جو ملک کے سب شہریوں کو برابری کا حق دیتی ہیں، آسانی سے اس فیصلے کو قبول کر لیں گی۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان اس سمت میں ایک واضح اشارہ ہے کہ اس فیصلے کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاے گا۔ شر پسندوں کے ذہنوں میں نئی سازشیں بن چکی ہوں گی، اس لیے اب اے ایم یو والوں کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ادارے کے دشمنوں کو ان لال عمارتوں سے کوئی گلہ نہیں جو سرسید اور ان کے رفقا نے قائم کی تھیں، نہ ان کو سرسید حال کی جامع مسجد سے کوئی تکلیف ہے، نہ ہی وکٹوریا گیٹ کی خوبصورتی سے ان کو گلہ ہے، ان کاغذ کی ڈگریوں سے جو اس ادارے میں قوم کے نوجوانوں کو دی جاتی ہیں اور جن کے ذریعہ وہ سماج میں ایک با عزت مقام حاصل کرتے ہیں۔ ان کو شکایت ہے اس تربیت سے جو ان نوجوانوں میں قیادت کی صلاحیتیں پیدا کرتی ہے۔ اس لیے جب تک اے ایم یو یہ خدمات کرتی رہے گی، اے ایم یو کے خلاف سازشیں بھی ہوتی رہیں گی، جن کے مقابلہ کے لیے تمام محبان علی گڑھ کو چاق چوبند اور متحد رہنے کی ضرورت ہے ۔