مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک میں اضافہ کیوں؟ : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

فرانس کے خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یوروپ میں مسلمانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا سامنا ہے۔ یوروپی یونین کے ادارہ برائے بنیادی حقوق’ایف آر اے‘ کے حوالے سے کہا گیا کہ 7اکتوبر2023 کو حماس کے اسرائیل پرحملے اور جوابی کارروائی میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کے بعد کئی ممالک میں مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف نفرت بڑھنے کی نشان دہی کی گئی۔ ’ایف آر اے‘ کی نئی رپورٹ بتاتی ہے کہ حماس حملے سے قبل بھی یوروپ میں مسلمانوں کوایسی مشکلات کا سامنا تھا۔ایک سازش کے تحت عالمی سطح پر پیدا نفرت آلود ماحول کے سبب ہر دو میں سے ایک مسلمان کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا سامناکرناپڑرہاہے۔ آسٹریلیا،جرمنی اور فن لینڈ میں تو ان واقعات کی شرح کافی بلند ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے بڑھتے واقعات سے پریشان یوروپی یونین کے ادارہ برائے بنیادی حقوق کے ڈائریکٹر سرپاراشومانتے ہیں کہ مشرقی وسطیٰ تنازعات نے مذہبی نفرت کو ہوا دی اور براعظم میں مسلم مخالف بیان بازی سے صورت حال میں مزید ابتری آئی۔ اکتوبر 2021 سے اکتوبر2022کے دوران 13یوروپی ممالک کے9600مسلمانوں سے گفتگو کے بعد تیار کی گئی رپورٹ میں خلاصہ ہوا کہ مسلم خواتین، مردوں اور بچوں کو مذہب کی بنیاد کے علاوہ رنگ و نسل اور آبائی پس منظر کی بنیادپر بھی نشانہ بنایا گیا۔وضاحت کی گئی کہ یوروپی ممالک میں پیدا ہونے والے مسلم نوجوانوں اور مذہبی لباس زیب تن کرنے والی خواتین کو خصوصاً ہدف بنایاگیا۔ ملازمتوں کے بازار میں بھی مسلم مخالفت میں اضافہ ہوا ہے،جو رہائش گاہوں، تعلیمی اداروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اسپتالوں جیسے دیگر شعبوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایف آر اے کے مطابق مسلمانوں میں ہر 5میں سے 2 افراد یا 41فیصد لوگ اپنی ملازمتوں کے لیے اضافی قابلیت کے حامل پائے گئے، جب کہ عام لوگوں میں یہ شرح صرف 22فیصد ہے۔ 19فیصد کو امور خانہ داری اور 33فیصد کو دیگر امور کی انجام دہی میں مشکلات کی شکایت ہے۔امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹر کے 2016 کے دستیاب تخمینے کے حوالے سے ایف آر اے کا کہنا ہے کہ یوروپ میں رہائش پذیر 2.60 کروڑ مسلمان مجموعی آبادی کا تقریباً5فیصد ہیں۔ زیادہ تر جرمنی اور فرانس میں رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں تنازعات کے بعد افغانستان،عراق اور شام سے ہجرت کرنے والے افراد کی وجہ سے یوروپی یونین میں مسلمانوں کی تعداد میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا۔

جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے تحت وزارت داخلہ نے 2020 میں ہناؤ میں نسل پرستانہ حملے کے بعد خصوصی پینل تشکیل کرکے اسے اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ذمہ داری سونپی تھی۔پینل نے3برس بعد حکومت کو سونپی رپورٹ میں واضح کیا کہ جرمن معاشرے کے ایک بڑے حصے میں مسلم مخالف رویہ موجود ہے۔ ہر2 میں سے1 شخص مسلم مخالف بیان سے اتفاق کرتا ہے۔ آزاد ماہرین کے پینل(یو ای ایم) نے 29 جون 2023 کو اسے ’اسلاموفوبیا،جرمن بیلنس شیٹ‘ میں شائع کیا۔ 400 سے زیادہ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں 9تحقیق کاروں نے ’سائنس مطالعات‘، جرائم کی بابت پولیس کے اعدادوشمار اور امتیازی سلوک کے خلاف ایجنسیوں،مشاورتی مراکز اور این جی اوز کی جانب سے مسلم مخالف واقعات کی دستاویزات کی بنیاد پر جرمن معاشرے کا جائزہ لیا۔یو ای ایم کے مطابق مسلمانوں اور مسلمان سمجھے جانے والے افراد کے ساتھ مجموعی،ناقابل تغیر،پسماندہ اور خطرناک رجحانات کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔ اس میں شعوری یا لاشعوری طور پر ایک اجنبیت یا دشمنی قائم ہو تی ہے،جس کی بنیاد پر پیدا ہونے والا کثیرجہتی معاشرتی اخراج اور امتیازی رویہ تشدد کی حد تک جا پہنچتا ہے۔مسلمانوں پر تشدد، انتہاپسندی اور پدرشاہی اقدار سے لگاؤ کے الزامات ہیں تومسلمانوں کی مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق پر پابندی اور مساوی حقوق سے محرومی کا تصور موجود ہے۔

اقوام متحدہ نے2023میں ہر برس10مارچ کومسلم تعصب سے نمٹنے کے لیے عالمی دن کا اعلان کیا۔جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں مسلم مخالف نفرت، امتیاز اور تشدد روکنے کے لیے اتفاق رائے سے قراردادمنظور کی گئی۔ قرارداد میں امن، انسانی حقوق اور مذہبی تنوع کے احترام کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر باہم گفتگو کا فیصلہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ دنیا میں پھیلے تقریباً 2اَرب مسلمان’ انسانیت کے شاندار تنوع کا اظہار‘ ہیں۔ اس کے باوجود انہیں اکثر عقیدے کی بنیاد پر تعصب اور بدگمانی کا شکار ہونا پڑتا ہے، جب کہ مسلم خواتین کو صنف، نسل اور عقیدے کی بنا پر ’تہرے امتیاز‘ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق صدر ساباکوروشی کے مطابق مسلم تعصب کی جڑیں یہودیوں کے خلاف تعصب اور اجنبیوں کے خوف سے ملتی ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں غزہ جنگ کے دوران مسلمانوں سے نفرت کے معاملات میں 700 فیصد اور یہود مخالف معاملوں میں 600فیصد تک اضافہ ہوا۔ امریکہ کے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 9/11کے حملوں کے بعد سے مغربی ممالک میں مسلمانوں کو تعصب اور نفرت کا سامنا ہے۔ مذہب کی بنیادپریوں تو نفرتیں پہلے سے ہی بڑھی تھیں،لیکن غزہ جنگ سے پیدا ہوئی صورت حال سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ برطانیہ میں مسلم نفرت اور تعصب پر نظر رکھنے والے ادارے’ ٹیل ماما‘ کے مطابق 7اکتوبر سے13دسمبر2023 تک مسلم مخالف واقعات میں7گنا اضافہ ہوا۔ادھر کمیونٹی سیفٹی ٹرسٹ کے مطابق حماس حملے کے دو ماہ میں یہود مخالف واقعات 6 گنا سے زیادہ بڑھے۔ مسلم خواتین کے سر سے حجاب کھینچنا اور’اپنے ملک واپس جاؤ‘، جیسے ریمارک معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ غزہ جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ میںایک مسلم خاندان پر انتہائی وحشیانہ حملہ مغربی ممالک میں نفرت کے شدت اختیار کرنے کا ثبوت ہے۔ نفرت پر مبنی جرائم یا ’ہیٹ کرائم‘ کی بنیاد نسلی، مذہبی یا جنسی تعصب ہوسکتی ہے۔ زبانی، جسمانی، دھمکی آمیز رویہ،آن لائن بُلیئنگ اور کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا ہیٹ کرائم کی مختلف صورتیں ہیں۔

یونیورسٹی آف لیورپول سے متعلق ڈاکٹر ایاز ملک کا خیال ہے کہ اس وقت دنیا میں جو صورت حال اور معاشی بحران ہے، اس میں دائیں بازو کی قوتوں کے حاوی ہونے سے معاشرے منقسم ہورہے ہیں۔ ان گروہوں کو بلاواسطہ اور بالواسطہ تقویت دینے میں حکمراں جماعتوں کا بھی اہم کردار ہے۔ یہودیوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے والے ادارے’اینٹی ڈیفیمیشن لیگ‘ کے مطابق غزہ جنگ کے بعد یہود مخالف واقعات میں400فیصد اضافہ ہوا ہے۔کاؤنسل فار امریکن اسلامک ریلیشنزکے مطابق اس عرصے میں اسلاموفوبیا اور عرب مخالف واقعات میں 200 فیصد کا اضافہ پایاگیا۔ ایڈوکیس گروپ کاؤنسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز(سی اے آئی آر) کے مطابق 2023میں مسلمانوں کے خلاف حملوں اور تفریقی سلوک کی مجموعی طور پر 8061 شکایتیں درج ہوئیں، جو 2022 کے مقابلے 56 فیصد زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر ودسمبر کے دوران حملوں اور تفریقی سلوک کی 3600 شکایتیں درج ہوئیں۔ اسلاموفوبیا رجسٹر آسٹریلیا کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ڈاکٹر نورااماتھ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 7اکتوبر 2023 سے اسلامو فوبیا کے واقعات میں 1,300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ متاثرین میں 80 فیصد خواتین ہیں۔ آسٹریلیا میں روزمرہ کا حصہ بنے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم انتھونی البانیس نے مسلم امور کے عالمی ماہر آفتاب ملک کی بطور خصوصی قاصد تقرری کی ہے۔

نفرت اور تعصب کا شکار ہونے والے افراد کا ان تنازعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،لیکن مخصوص طبقے سے تعلق ہونے کی بنا پروہ نفرت کانشانہ بنائے جاتے ہیں۔ نفرت اور امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مغربی ملکوں سمیت دنیا بھرکے تمام ممالک اس جانب سنجیدگی سے غوروخوض کریں۔اپنے اثرورسوخ کا ہر ممکن استعمال کرکے مناسب اقدام اُٹھائیں،تاکہ عالمی سطح پر پھیلی اس بدترین برائی کا حتمی طور پر سد باب کیا جا سکے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS