اے :آزادقاسمی
ملک کی داراالحکومت دہلی میںلمبے وقفہ کے بعدہندوستانی مسلمانوں کی ایمانی غیرت وحمیت کا مظاہرہ تب دیکھنے کو ملا،جب مسلمانوںکی نمائندہ، مؤثرو قدیم جماعت جمعیۃعلماء ہند کے زیراہتمام3 نومبر 2024کو ہونے والے ’تحفظ آئین ہند کنونشن‘ میں شریک رہنے کاموقع ملا۔اس تاریخی تقریب کی عظیم کامیابی کو درج ہوتے ہوئے ہزاروںلوگوںنے کھلی آنکھوں سے دیکھا تو لاکھوںلوگ سوشل میڈیا کے ذریعہ اس اہم پروگرام سے جڑے اوراس بے مثال کنونشن کی تاریخی حیثیت کے گواہ بنے۔ جمعیۃعلماء ہند کا یہ کنونشن اپنے موضوع اوراہمیت کی وجہ سے بہت ہی بامقصد اوربروقت تھا، جس میں تاریخی اندراگاندھی انڈوراسٹیڈیم نئی دہلی میں موجودفرزندان توحیدکے جم غفیر نے اپنی شائستگی و حسن اخلاق سے مزیدچار چاند لگادیا۔جمعیۃعلماء ہند کے اس باوقار اسٹیج پر موجوداکابر علماء اوردانشوران قوم کے خطاب اوریہاںسے دیئے گئے میسج کو جس خوش اسلوبی سے حاضرین نے تسلیم کیا ہے اس کی جس قدربھی سراہنا کی جائے کم ہے،جی چاہتاہے کہ کنونشن کے روح رواں، امیرالہنداورصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی اس جرأت مندانہ اقدام کے حضور بصداحترام خراج تحسین پیش کی جائے اوران کی اس اہم پیش رفت کو ہدیہ سلام پیش کیاجائے ۔ مولانا مدنی نے مایوس ہوچکے ملت کے زخموںپر جس طرح سے اپنا مشفقانہ ہاتھ رکھاہے، ملت ایک مدت تک اس کی آسودگی کومحسوس کرے گی، اس سے اپنے لئے سبق لیتی رہے گی اورآگے کا لائحہ عمل ان کی اس سرفروشانہ اور تاریخی بیان کی روشنی میں انجام دینے کی سعی کرتی رہے گی ۔یہ بات تاریخی طورپر مسلم ہے کہ ملک عزیزمیں مسلمانوںکی ہرموڑپر پاسبانی کا فریضہ جمعیۃعلماء ہند کے قائدین نے حالات کیسے بھی رہے ہوںبخوبی انجام دیا ہے،ملک میں بزرگوںاوراکابرین امت کی جماعت جمعیۃعلماء ہند کے قائدین نے آگے آکر ملت کوڈھارس بندھائی ہے اورملک کے آئین اوردستورمیں دیئے گئے حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، جس سے ملک میںبسنے والی سب سے بڑی اقلیت کو ملک میں سراٹھاکر جینے کاحوصلہ اورملک وملت کی تعمیرمیںمنصفانہ کردار عطا کرنے کا جذبہ ملاہے جو اکابرین جمعیۃ کی مخلصانہ کاوشوںکو اجاگر کرتا ہے۔ بلامبالغہ یہ صورتحال ملک میں پھیلے ہوئے اس عظیم جماعت کے کارکنان کے حوصلوںکو پختگی اورنئی توانائی عطا کرتی ہے ۔
جمعیۃعلماء ہند کے زیراہتمام ہونے والے کامیاب ’تحفظ آئین ہند کنونشن‘ کاپیغام اس قدرصاف اورواضح تھا جس کا ہر انصاف پسند،سیکولرمزاج کے حامل اورملک میں پیارومحبت کی فضا کو پنپتے ہوئے دیکھنے والوں نے والہانہ استقبال کیا ہے اور مولانا مدنی کے دیئے گئے بیان کو تاریخ کا زریں باب قراردیا ہے ، ملک کے متعصب الیکٹرانک میڈیا نے مولانا مدنی کے صدارتی خطاب کو منفی پیرایہ میں پیش کرنے کی ضرورناکام کوشش کی، لیکن آئین ہند کے سیکولر کردارپر اٹوٹ یقین رکھنے والے انصاف پسند لوگوںکی اکثریت نے اسے یکسرمستردکرتے ہوئے مولانا مدنی کی تقریرکا بڑی گرمجوشی سے استقبال بھی کیا اوران کی جرأت وہمت کی داددیئے بغیر نہیں رہ سکے اورہوبھی کیوں نہ کہ مولانا مدنی کے اندراس مجاہد آزادی کا خون دوڑرہاہے جس کی للکارسے انگریزی ایوان میں زلزلہ ساآجاتاتھا جنہوںنے عدالت میں کفن بردوش ہوکر گورے ججوںکے سامنے قسم کھائی تھی کہ حسین احمدؒ ملک کی آزادی کے تعلق سے دیئے گئے اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، چاہے بطورسزامجھے دیارغیرمیں دفن ہونا پڑے ۔ یہ انہی حریت کے متوالوںکی اولاد ہیں، باطل قوتوںکے سامنے سرنگوںہونا ان کا شیوا نہیں ہے ۔جیسا کہ ان کی تقریرسے بھی واضح ہے جس میں انہوںنے ہزاروں کی بھیڑ کو ڈھارس دیتے ہوئے مایوسی کے طوق کو نکال پھینکنے کی اپیل کی اور کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کے جیالے جب انسانیت پر شب خوںمارنے والے خوں خوار گوروںکے آگے نہیں جھکے تواورکسی کے سامنے جھکنے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا، آپ ہمت رکھیں اورآئین ہند کی پیروی کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں، جمعیۃعلماء ہند ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑی رہے گی اورہرموڑ پر جمعیۃکے اکابرین کوآپ اپنے درمیان رہبری کا فریضہ انجام دہتے ہوئے پائیںگے ۔
مولانا مدنی نے جمعیۃعلماء ہند کے کنونشن میں وقف ترمیمی بل ، اسرائیلی جارحیت ، مدارس اسلامیہ کے کردارکو مشکوک بنانے کی سازش،آسام شہریت معاملہ اور یکساں سول کوڈجیسے حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے جس بے باکی اورجرأت کا اظہارکیا،وہ یقینا ہندی مسلمانوںکے لیے امکان ویقین کی پختگی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔انہوںنے وقف ترمیمی بل کے نکات پر بات کرتے ہوئے حکومت کو یہ پیغام دینے کی بھرپورکوشش کی ہے کہ وقف خالص مسلمانوںکامذہبی وشرعی معاملہ ہے ۔ اس کے ایکٹ سے ناقابل قبول چھیڑچھاڑملک کے جمہوری ڈھانچہ پر اقلیتوںکے اعتمادکو متزلزل کردے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کسی بھی ترمیم سے پہلے ملک میں بسنے والے مسلم اقلیتوںکو اعتمادمیں لے اوراس کے جمہوری اعتبارکی قدرکرے ،کیونکہ مسئلہ وقف کے تحفظ کانہیں ہے بلکہ ملک کے آئین کے تحفظ کا ہے ۔یہ وہ سیکولرآئین ہے جس کے لیے ہمارے اکابرین سالوں تک ملک کو غلامی سے آزادکرانے کے لیے قربانیاں دیتے رہے ،چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں اوریہی حقیقت بھی ہے کہ ملک کا سیکولر آئین جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے بنوایا ہے ۔اس کے دستاویزی ثبوت تاریخ کے اوراق کی زینت ہیں ،آزادی کے بعد جو آئین مرتب ہوا، اس میں ملک کی تمام مذہبی اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہی فراہم نہیں کی گئی بلکہ دوسرے کئی اہم اختیارات بھی دیئے گئے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ حکومت آئین میں شامل ان دفعات کی مخالف ہے جس میں اقلیتوںکے مذہبی مقامات، عمارتوں،قبرستان ، امام باڑوں، درگاہوں،تکیہ وغیرہ کو تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔چنانچہ یہ ترمیمی بل آئین کی نہ صرف بالادستی کو ختم کرتاہے بلکہ اس میں کی گئی ترمیمات کے ذریعہ حکومت وقف کو مسلمانوںکے ہاتھوںسے چھین لینا چاہتی ہے، اس لئے ہم اس خطرناک نظریہ کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں اور اس ترمیمی بل کی ہر شق کو مستردکرتے ہیں۔
ملک کی آزادی میں مدارس اسلامیہ کے کلیدی رول کی وضاحت کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ملک کی آزادی میں جس طرح کا کرداریہاں کے مدارس کا رہا ہے ،وہ سنہری حرفوںمیں تاریخ کے اوراق میں نقش ہے۔ مدارس کو کسی ایک مزاج کا حامل قراردینا اوریہاں پڑھنے اورپڑھانے والے کے کردارکو مشکوک بنادینے کی کوشش تاریخ ہند سے نابلد شخص ہی کرسکتاہے ۔ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا قیام ہی ملک کی آزادی کے لیے مجاہدین آزادی پیداکرنے اورملک کی بے لوث خدمت کے لیے افرادکی تیاری تھی۔ افسوس !اس اہم مقاصدکے لیے بنائے گئے ادارہ کے وجودکو آج شک کی نظرسے دیکھاجارہا ہے اورآنے والی نسلوںکے ذہنوں میں اسے پوری طرح سے مشکوک بنادینے کاکھیل کھیلاجارہا ہے جسے یہاں کے بسنے والے سیکولرافرادکسی طورکامیاب نہیں ہونے دیںگے ۔ مولانا مدنی نے زوردے کر کہاکہ ہم آج سے نہیں صدیوںسے اس ملک میں برادران وطن کے ساتھ رہتے آرہے ہیں ، آپ ملک کے کسی کونہ میں چلے جائیں، آپ کو مسلم گرجربھی ملے گا اورہندوگرجربھی۔ اسی طرح اگر آپ کشمیر کے علاقہ میں جائیںگے توجہاں آپ کو برہمن ہندوملے گا،وہیں برہمن مسلم بھی آپ کو مل جائیں گے جواس بات کی دلیل ہے کہ ہماراملک کس قدرتنوع اپنے اندرلئے ہوئے روئے زمین پر پھل پھول رہاہے لیکن افسوس ہواس بدبختی کا کہ کچھ نفرت کے سوداگروںکو ہماری یکجہتی راس نہیں آرہی ہے ، جسے ہم کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیںگے کیوںکہ ملک کی سالمیت کو ہمارے اکابرین نے بڑی قربانی اورمشقتوںسے پروان چڑھایاہے ۔اس کا تحفظ اوراس کے سیکولرکردارکی حفاظت ہمارانصب العین ہے ۔
تحفظ آئین ہند کنونشن میں پیش تجاویز اوراس کے مشمولات یہ بتاتے ہیں کہ جمعیۃعلماء ہند کے زیراہتمام اورمولاناارشدمدنی صدرجمعیۃعلماء ہند کی صدارت میں ایک عرصہ کے بعد ہونے والا یہ کنونشن پوری طرح سے کامیاب رہا۔اس باوقار اسٹیچ پرموجودعبقری شخصیات،مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ،مولانا فضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ،مولانا اسجدمدنی نائب صدرجمعیۃعلماء ہند ،مولانااصغرعلی امام مہدی سلفی امیرجمعیۃاہل حدیث ہند ،اورجمعیۃعلما ء ہند کے صوبائی صدوراوراس کے معززارکین عاملہ کی موجودگی اورمفتی سیدمعصوم ثاقب کی ولولہ انگیزنظامت کے ذریعہ جو پیغام دیا گیا، وہ یقینا لائق تقلید اورقابل تحسین ہے۔ مولانا مدنی نے جوپیغام لوگوںکودیا، وہ ملک وملت کے لئے ایک روڈمیپ ثابت ہوگا،حکومت چاہتی ہے کہ عوام کی توجہ سنجیدہ اوربنیادی مسائل مثلاًبے روزگاری اورمہنگائی سے ہٹ جائے اور فرقہ پرست عناصر نفرت وعداوت کی کاشتکاری میں مصروف رہیں اورحکومت کی چشم پوشی سے فائدہ اٹھاتے ر ہیں ۔ ملک کے وقاراس کی فلاح وبہبودسے مکمل طورپر چشم پوشی برتی جائے اس کی سالمیت وترقی سے کوئی غرض نہیں ۔ایسے میں کیاہم پر یہ فرض نہیں عائد ہوتا کہ ہم سنجیدگی سے سرجوڑکر اکھٹا بیٹھیں اورملک وملت کے مسائل کا جائزہ لیں ۔ اوران کے حل کے لیے مضبوط اور موثرلائحہ عمل تیارکریں ۔جمعیۃعلماء ہند کے اس کامیاب کنونشن کے اسٹیج سے ہی مولانا مدنی نے بہارکی راجدھانی پٹنہ میں24 نومبر اور 15 دسمبرکو کڑپہ آندھرا میںتحفظ آئین ہندکنونشن کرنے کااعلان کرکے موجودہ حکومت کو بہت کچھ سوچنے پرمجبورکردیاہے ۔ امیدہے کہ مذکورہ تاریخ کو ہونے والی کانفرنس تاریخی ہوگی اورملک وملت کی تعمیر وترقی میں اس کے بھی دورس نتائج مرتب ہوںگے ۔