پروفیسر عتیق احمدفاروقی
امریکی صدارتی انتخاب میں ریپبلکن امیدوار ڈونالڈٹرمپ کی فتح کے دورس اثرات سامنے آئیں گے۔انہیں لے کر کئی طرح کے امکانات اورخدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ بلاشبہ اس نتیجے کا اثر امریکہ کی داخلی سیاست پر تو پڑے گاہی ، بین الاقوامی سفارتکاری پر بھی ہوگا۔ یہ عوامی فرمان اس بات کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ امریکی معاشرہ اوروہاں کی سیاست اب کئی قطبی ہوگئی ہے۔ اسے ’گورا بنام کالا‘میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کی فتح کے کئی اسباب ہیں۔ اول، ان کے پاس اپنا مضبوط حامی طبقہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مانتے ہیں کہ ڈیموکریٹ حکومت میں امریکہ کے دبدبہ میں کمی آئی ہے۔ مہاجرین کی آمد بڑھنے سے یہاں کی آبادی بھی اثرانداز ہوئی ہے اورگوروں کی بالادستی کم ہورہی ہے۔ اسی سبب ’میک امریکہ گریٹ اگین ‘ America Great Againجیسا نعرہ ان میں جوش پیدا کرتاہے اورٹرمپ کو یہ اپنے لئے مسیحا مانتے ہیں۔ دوئم، امریکہ میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو مہاجرین سے متعلق بائیڈن کی پالیسی سے ناراض تھے۔ الزام ہے کہ کیلیفورنیاجیسی ریاست میں جہاں رائے دہندگان کو ووٹ دینے کیلئے کسی شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں پڑتی، کئی مہاجرین کو ووٹربنایاگیاتاکہ وہ ڈیموکریٹ پارٹی کو ووٹ دے سکیں۔ اس لئے بطور رد عمل لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں اتحاد کا مظاہرہ کیاہوگا۔ سوئم، امریکہ کا ایک طبقہ یہ بھی مانتاہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ ان کوچناؤ لڑنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اُن پر کئی مقدمات لاددیے گئے اورعدلیہ کا بطور اوزار استعمال کیا گیا۔ اس نے خصوصاً سونگ ووٹروں (جن کا سیاسی رجحان واضح نہیں ہوتا)کو ریپبلکن کی جانب راغب کیا۔ علاوہ ازیں امریکی عوام اتنی آسانی سے کسی کالے اوروہ بھی ایک خاتون کو قبول نہیں کرناچاہتے۔ چہارم، اس نتیجے کیلئے خود کملاہیرس بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہ اگرلائق ہوتیں توشاید پہلی خاتون امریکی صدر بننے کی تاریخ رقم کرسکتی تھیں لیکن اُن میں نہ صرف تخلیقی صلاحیت کا فقدان نظرآیا بلکہ پالیسی کے مدعوں پر بھی اُن کی الجھن ظاہرہوتی رہی۔ کٹھ پتلی امیدوار کا الزام تو اُن پر پہلے سے ہی تھا۔ نتیجتاً وہ اپنے لئے ضروری حمایت نہیں حاصل کرسکیں۔ پنجم، کسی پرائمری کو جیتے بنا پیرا شوٹ امیدوار بننا بھی کملا ہیرس کے خلاف گیا۔ ان کے خیالات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ وہ انہی باتوں کو موضوع بحث بناتی ہیں جو براک حسین اوبامہ و مشیل اوبامہ ،بل وہلیری کلنٹن یا جوبائیڈن جیسے لیڈر کہتے رہے ہیں۔ اس سے یہ تصور سامنے آیاکہ صدر بننے کے بعد بھی کملا ہیرس خود فیصلے نہیں لیں گی ۔ نروس ہونے پر اُن کی ہنسی بھی لوگوں کو چبھی ہوگی۔ اُنہیں اتنی بھی حمایت اس لئے ملی کہ امریکہ کی ایک بڑی آبادی ڈونالڈٹرمپ سے خفاہے۔ البتہ کئی ڈیموکریٹ کو اب یہ فکر ہوگی کہ جیسا انہوں نے بویاہے کہیں ویساہی کاٹنا نہ پڑجائے، یعنی جس طرح سے انہوں نے ٹرمپ کو روکنے کیلئے قوانین کا سہارا لیا کہیں ٹرمپ بھی ان پر مقدموں کا بوجھ نہ لاددیں۔ حالانکہ اب مین اسٹریم میڈیا کے سامنے بھی پریشانی کھڑی ہوگی۔ وہ ٹرمپ پر لگاتار حملہ آور رہاہے۔ قیاس ہے کہ آگے بھی ایسا ہوتارہے گا۔ اس کی یہی کوشش رہے گی کہ ٹرمپ کو اپنے موافق کام کرنے کی کھلی چھوٹ نہ مل سکے۔ ایسے میں میڈیا میں ان کی تنقید اورزیادہ تیز ہوسکتی ہے جس سے امریکی معاشرہ میں پولرائزیشن تیز ہوسکتاہے جوممکنہ طور پر کشیدگی کا سبب بنے۔
جہاں تک عالمی سیاست کا تعلق ہے ، کچھ علاقوں میں اس نتیجے کا اثر صاف صاف دِکھ سکتاہے۔ مثلاً اب یوروپ کی سیاست متاثرہوسکتی ہے۔ سال 2016ء میں جب ٹرمپ کو فتح ملی تھی تب بطور جرمن چانسلر اینجیلامرکیل نے کہاتھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ہم اپنے اقدار کو شیئر نہ کرتے۔ ظاہر ہی یوروپی ممالک کی وہ تشویش آج بھی قائم ہوگی۔ پھر ناٹو کے خلاف بھی ٹرمپ کھل کر بولتے رہے ہیں اوریہ مانتے رہے ہیں کہ اس پر خرچ بنیادی طور پر امریکہ کا ہوتاہے لیکن فائدہ خصوصاً یوروپی ممالک اُٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ اپنی فوجی سلامتی پرخرچ میں اضافہ کرنے کے بجائے امریکہ سے امید لگائے رہتے ہیں اوراپنی معیشت کو سدھارتے رہتے ہیں۔ اب ٹرمپ اگر ناٹو کو لے کر کوئی اُلٹاقدم اٹھاتے ہیں تو یوکرین جنگ پر اِس کا براہ راست اثر پڑے گا۔ ویسے بھی ٹرمپ پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگروہ برسرِ اقتدار ہوتے تو یہ جنگ ہی نہیں ہوتی۔ حکومت بننے پر جلد اِسے ختم کرانے کا دعویٰ بھی وہ کرتے رہے ہیں۔ وہ روس کے ساتھ معاہدہ کے بھی حامی ہیں۔ ایسے میں یوکرین کے صدر ویلادمیرزیلینسکی کیلئے یہ نتیجہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگا۔ ٹرمپ اُن پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ زیلینسکی آتے ہیں اوراربوں ڈالرامداد لے کر چلے جاتے ہیں۔ جس سے امریکی معیشت پر بوجھ پڑتاہے۔ اسرائیل ایران تنازعہ پر بھی یہ نتیجہ اثرانداز ہوسکتاہے۔
ظاہر ہے ٹرمپ اسرائیل کے حامی ہیں اورایران کو کبھی بھی جوہری طاقت نہ بننے دینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ آگ اوربھڑکے کی یا بجھے گی؟آگ بھڑکانا تومناسب نہیں ماناجائے گا لیکن اگراس آنچ کو روکناہے تو اسرائیل کوروکناہوگا۔ساتھ ہی ایران پر بھی کچھ دباؤ ڈالنا ہوگا۔ ٹرمپ کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
ٹرمپ ہند -بحرالکاہل پالیسی میں شاید ہی بہت زیادہ تبدیلی کریں ۔ہاں چین پردباؤ بنانے کیلئے وہ کواڈ (جاپان،آسٹریلیا ، ہندوستان اورامریکہ کا گروپ)کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ وہ امریکہ آنے والی اشیاء پر ٹیرف بھی بڑھاسکتے ہیں۔ جن کا نقصان ہندوستان کو بھی ہوسکتاہے۔ٹیرف ٹرمپ کی پچھلی حکومت میں بھی ایک بڑا مدعہ تھا۔ یہ صحیح ہے کہ بائیڈن کی مدتِ کار میں تکنیک (خصوصاً سیمی کنڈیکٹرکا بنانا)، خدمات اور دفاع جیسے معاملوں میں ہندوستان اورامریکہ میں کافی قربت پیدا ہوئی ہے لیکن اقتصادی مسئلوں کو چھوڑ کر باقی سب پر شاید ہی کوئی اثر پڑے ۔ ٹیرف میں اضافہ کے علاوہ ڈبلیو -ٹی -او کو کمزور کرنے سے متعلق ٹرمپ کے پہلے کے بیانوں سے بھی ہماری تشویش بڑھی ہے۔ کیونکہ ہم اس تنظیم کے حامی ہیں۔ حالانکہ وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ ٹرمپ کی دوستی کافی اچھی ہے، ایسے میں اُمید یہی ہے کہ ہمارے ملک کو فائدہ ہی زیادہ ہوگا۔